نیپال میں زلزلہ کیوں آیا؟

نیپال کے علاقے بھکتاپور میں لوگ زلزلے کے بعد پھٹ جانے والی سڑک کو دیکھ رہے ہیں۔ 26 اپریل 2015۔ — رائٹرز
نیپال کے علاقے بھکتاپور میں لوگ زلزلے کے بعد پھٹ جانے والی سڑک کو دیکھ رہے ہیں۔ 26 اپریل 2015۔ — رائٹرز

نیپال کا تباہ کن زلزلہ ایک ایسی آفت تھی، جس کے بارے میں ماہرین جانتے تھے کہ یہ ضرور آئے گی، لیکن زلزلوں کے ماہرین کے پاس اب بھی ایسے زلزلوں کی تفصیلی پیش گوئی کرنے کے لیے مطلوبہ معلومات ناکافی ہیں۔

ہفتے کے روز نیپال میں آنے والے زلزلے نے کھٹمنڈو میں گھروں کو شدید نقصان پہنچایا، ثقافتی ورثوں کو تباہ کیا، جبکہ زلزلے کی وجہ سے ماؤنٹ ایورسٹ پر لینڈ سلائیڈ میں بھی کئی لوگ مارے گئے۔

اموات کی تعداد اب تک ہزاروں میں ہے، لیکن ماضی کے تجربات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ بیسیوں ہزاروں میں بھی جا سکتی ہے۔

نیپال خاص طور پر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے، کیونکہ یہ زیرِ زمین دو بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں، انڈو-آسٹریلیائی پلیٹ اور ایشیائی پلیٹ، کی سرحد پر واقع ہے۔ ان دونوں پلیٹوں کے آپس میں ٹکرانے سے ہمالیہ کے پہاڑوں نے جنم لیا، اور اسی وجہ سے یہاں زلزلے معمول اور متوقع ہیں۔

پڑھیے: سی این این کے رپورٹر نے کی نیپال میں سرجری

ہمالیہ پر ہماری تحقیق بڑے پیمانے پر ہونے والی ان قدرتی سرگرمیوں پر روشنی ڈال رہی ہے، جس کی مدد سے ہم مقامی لوگوں کو لاحق خطرات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

بشکریہ Cosmos Magazine
بشکریہ Cosmos Magazine

زلزلے کیوں آتے ہیں؟

25 اپریل کو آنے والا زلزلہ 7.8 شدت کا تھا۔ یہ 1934 میں بہار میں آنے والے زلزلے کے بعد دوسرا بڑا زلزلہ تھا۔ اس زلزلے کی شدت 8.2 تھی اور اس میں 10,000 لوگ مارے گئے تھے۔ کشمیر میں 2005 میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.6 تھی، اور اس میں تقریباً 80,000 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔

انڈو-آسٹریلیائی ٹیکٹونک پلیٹ اور ایشیائی ٹیکٹونک پلیٹ، جن کے آپس میں ملنے کی وجہ سے پچھلے 5 کروڑ سالوں کے درمیان ہمالیہ کے پہاڑ پیدا ہوئے ہیں، ان کا ٹکراؤ آج بھی جاری ہے، اور جس کی وجہ سے یہ زلزلے آتے رہتے ہیں۔

یہ زلزلے پہاڑوں میں رہنے والوں کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان خطرات میں سیلاب اور مون سون کی لینڈ سلائیڈز شامل ہیں۔ 2013 میں کیدارناتھ کا سانحہ، جس میں 5000 لوگ مارے گئے تھے، اس کی ایک مثال ہے۔

زلزلے تب آتے ہیں جب زمین کی سطح پر تناؤ بڑھتا ہے، اور پھر عموماً پرانی فالٹ لائنز کی جگہ سے اس تناؤ کا اخراج ہوتا ہے۔ اس کیس میں یہ تناؤ اِن دو ٹیکٹونک پلیٹوں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔

کئی عوامل نے مل کر اس زلزلے کو آفت میں تبدیل کیا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ اس کی گہرائی کافی کم تھی۔ اپنے مرکز پر یہ زمین سے صرف 15 کلومیٹر نیچے تھا۔ اس کی وجہ سے زمین 3 میٹر تک کھسکی، اور فالٹ کا پھٹنے والا حصہ کھٹمنڈو کے گنجان آباد علاقوں تک پھیل گیا۔

زلزلے کے ریکارڈز کے ابتدائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ انشقاق (زمین کا پھٹنا) کی ابتداء کھٹمنڈو سے 70 کلومیٹر شمال مغرب کے ایک نسبتاً کم گہرے فالٹ سے ہوئی، جو کہ شمال کی جانب جانے پر گہرا ہوتا جاتا ہے۔

تصاویر: نیپال، ہندوستان میں زلزلہ

اور اگلے منٹ میں انشقاق مشرق کی جانب 130 کلومیٹر، اور جنوب میں 60 کلومیٹر تک بڑھ گیا، اور 15,000 اسکوائر کلومیٹر فالٹ حصے کو توڑ دیا، اور کئی جگہ پر زمین 3 میٹر تک کھسکی۔

ہمالیہ کے اس حصے میں زیرِ زمین پلیٹیں 2 سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے ایک دوسرے سے مل رہی ہیں، اور اس زلزلے کے ساتھ تقریباً ایک صدی کے جمع شدہ تناؤ کا اخراج ہوا ہے۔

زلزلوں کی پیش گوئی

اس خطے میں بڑے زلزلے غیر متوقع نہیں ہیں، لیکن زلزلوں کے ماہرین کے پاس اب بھی اتنی معلومات نہیں، کہ وہ اس طرح کے زلزلوں کی تفصیلات کی پیش گوئی کر سکیں۔ زلزلوں کے تسلسل کو شماریات کے ذریعے اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ایک ایک زلزلے کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں۔

اس خطے کی اس مخصوص جگہ پر اس وقت اتنے بڑے زلزلے کے آنے، اور ہمالیہ میں کسی دوسری جگہ پر نہ آنے نے سائنسدانوں کو پریشان کر دیا ہے۔ اور اس سوال کا جواب نہ ہونے کی وجہ سے زلزلوں سے نمٹنے کے لیے ٹارگٹڈ تیاریاں کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

لیکن ہر زلزلے کے ساتھ سائنسدان اہم معلومات حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ امریکی جیالوجیکل سروے اور جیوسائنس آسٹریلیا جیسے ادارے، جو لمحہ بہ لمحہ زیرِ زمین ہونے والی پلیٹوں کی حرکات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ان کی جانب سے فراہم کردہ اعلیٰ کوالٹی کا ڈیٹا سائنسدانوں کو ایک واضح تصویر فراہم کر رہا ہے۔

نئی تکنیکوں سے ہم ماضی کے زلزلوں کا ریکارڈ بھی اب زیادہ بہتر انداز میں سمجھ پا رہے ہیں۔ ہماری ریسرچ، جس میں یونیورسٹی آف میلبرن، جواہر لعل نہرو سینٹر فار ایڈوانسڈ سائنٹیفک ریسرچ، انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس، کینیڈا کی یونیورسٹی آف وکٹوریا، اور بھوٹان کی حکومت تعاون کر رہے ہیں، ہندوستان کی ریاست اترکھنڈ اور بھوٹان میں موجود ہمالیائی علاقوں میں زلزلوں کی جیالوجی کے بارے میں ہے۔

مزید تصاویر: نیپال زلزلہ: ہر آنکھ اشک بار

ہم ٹیکٹونک سرگرمیوں کے اشاریوں کو ریکارڈ کر رہے ہیں، جو زلزلوں کے ٹائم اسکیل (سیکنڈوں سے دہائیوں تک) کو جیالوجیکل ٹائم اسکیل (لاکھوں سے کروڑوں سالوں تک) سے جوڑتے ہیں۔

جغرافیائی مطالعے میں نئی اور ڈیجیٹل تکنیکوں، زمین کے خدو خال کی قدامت جاننے کے نئے طریقوں، اور طاقتور کمپیوٹر سمولیشن کی مدد سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑے اور تاریخی انشقاق اور زلزلے کس طرح ہمالیہ میں ہونے والی جیالوجیکل تبدیلیوں سے ربط رکھتے ہیں۔

اس سے زلزلوں کے درمیان وقفوں (سائزمک گیپس) پر روشنی ڈالنے میں مدد مل رہی ہے۔ کسی بڑے اور تاریخی انشقاق / زلزلے کا نہ آنا بھی تشویش کی بات ہے۔ اس پر آپ ہماری تازہ ترین تحقیق یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

پچھلے 200 سے 500 سالوں میں ہمالیہ کے پاس موجود اترکھنڈ کی 700 کلومیٹر طویل پٹی، جس پر 1 کروڑ لوگ رہتے ہیں، میں کبھی بھی بڑا زلزلہ نہیں آیا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب زلزلے کا وقت قریب آرہا ہے؟

اترکھنڈ اور دوسری جگہوں پر ہماری تحقیق یہ واضح کر رہی ہے کہ کس طرح انشقاق کی لمبائی اور ہمالیائی زلزلوں کی شدت لمبے عرصے سے موجود جیالوجیکل ڈھانچوں سے جڑی ہوئی ہے۔ عالمی تحقیقی برادری اس بات پر کام کر رہی ہے کہ کس طرح زلزلوں کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے، تاکہ مستقبل میں ان کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔

آسٹریلین انڈین اسٹریٹجک ریسرچ فنڈ اور ڈیپارٹمنٹ آف فارن افیئرز اینڈ ٹریڈ آسٹریلیا کی فنڈنگ سے چلنے والا ہمارا شراکتی پروگرام ہماری حکومتوں کی زلزلوں پر ہونے والی عالمی تحقیق سے لگاؤ کا عکاس ہے۔

بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔ یہ مضمون سب سے پہلے The Conversation میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

م-ن May 02, 2015 03:57am
سائینس و ٹیکنالوجی پر مضامین کا سلسہ دلچسپ ہے۔ پلیز جلدی اپڈیٹ کیا کریں !