میڈیا کا غیر ضروری ہیجان ایان کیس کی طوالت کا سبب؟

شائع May 13, 2015

اسلام آباد: سپر ماڈل ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کا کیس اس قدر پیچیدہ نہیں ہے، جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے، اس لیے کہ ان کی گرفتاری سے چند مہینے پہلے اسی طرح کے جرم پر گرفتار ہونے والی ایک غیر ملکی خاتون کو دو ہزار روپے کے برائے نام جرمانے کی ادائیگی کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 14 مارچ کو ایان علی، بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دبئی جانے والی پرواز پر سوار ہونے سے قبل پانچ لاکھ ڈالر کے ساتھ پکڑی گئی تھیں، یہ رقم ان کے سوٹ کیس سے برآمد ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک سپرماڈل اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

ان کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواستیں کسٹمز ایکسائز اور ٹیکسیشن کی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مسترد کردی گئی تھیں۔

یاد رہے کہ تھائی لینڈ کی ایک شہری اورافن کانما کو بھی اسی ایئرپورٹ پر اسی طرح کے جرم کے تحت 7 اکتوبر 2014ء کو پکڑا گیا تھا۔

ایان علی تو اپنے سوٹ میں غیرملکی کرنسی لے جارہی تھیں، ان کے برعکس اورافن کانما نے پچاس لاکھ روپے کی مالیت کے مساوی ڈالرز، پاؤنڈز، یوروز اور تھائی بھات کو اپنے کوٹ کے اندر سلائی کرکے چھپایا ہوا تھا۔ جبکہ قانون کے تحت دس ہزار ڈالرز سے کم اور تین ہزار روپے کی رقم لے جاسکتی تھیں۔

اورافن کانما اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں قائم ہیلتھ کل میں کام کرتی تھیں۔ انہیں کسٹم کی عدالت کے سامنے 8 اکتوبر کو پیش کیا گیا اور انہیں تین دن کے بعد ضمانت مل گئی تھی۔

تاہم ان کے مقدمے کی سماعت 24 فروری 2015ء تک جاری رہی۔ عدالت نے غیرملکی کرنسی اسمگل کرنے کی کوشش پر اورافن کانما کو دو ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ انہوں نے یہ رقم متعلقہ حکام کے پاس جمع کرائی اور ملک سے چلی گئیں۔

اورافن کانما کے وکیل ایڈوکیٹ اصغر علی مبارک نے ڈان کو بتایا کہ یہ بہت سادہ سا معاملہ تھا، اس لیے عدالت نے ملزمہ کو ایک ہفتے کے اندر اندر رہا کردیا اور پانچ مہینوں میں مقدمے کا فیصلہ ہوگیا۔

ایڈوکیٹ اصغر علی نے کہا کہ اگرچہ انہیں مجرم قرار دے دیا گیا تھا، لیکن عدالت نے ان پر معمولی جرمانہ عائد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’’اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اورافن کانما کا معاملہ میڈیا میں نمایاں نہیں ہوا تھا۔‘‘

ایڈوکیٹ اصغر علی نے بتایا ان کی جلد از جلد رہائی کے پس پردہ ایک اور عنصر یہ تھا کہ تھائی لینڈ کے سفارتخانے نے اس کیس کی بھرپور پیروی کی تھی۔ سماعت کی ہر تاریخ پر اس سفارتخانے کا ایک عہدے دار عدالت میں موجود ہوتا تھا۔ اس سفارتخانے نے کسٹم حکام سے بھی مسلسل رابطہ رکھا ہوا تھا۔

ایان کے وکلاء کے پینل میں شامل ایک وکیل کا کہنا تھا کہ اس طرح کے زیادہ تر مقدمات میں کسٹمز کی عدالت چند سماعتوں کے بعد ملزم کو ضمانت دے دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ ماڈل ایسی خوش قسمت نہیں ہیں کہ انہیں دو مہینوں کے بعد بھی ضمانت پر رہا کیا جائے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسٹم حکام کو اس کیس میں ریکارڈ شہرت حاصل ہورہی ہے، لہٰذا وہ اس معاملے کو طول دے رہے ہیں، اور میڈیا کے ذریعے غیرضروری طور پر ہیجان پیدا کیا جارہا ہے۔

تاہم کسٹم استغاثہ کے ایک عہدے دار امین فیروز سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی کیس نہیں ہے، اگر سپرماڈل کو مجرم قرار دے دیا گیا تو انہیں 14 برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت ان پر جرمانہ بھی عائد کرسکتی ہے۔

امین فیروز نے کہا کہ ’’ہر معاملے میں ملزم کو ضمانت نہیں ملتی۔‘‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ کرنسی اسمگلنگ کے بعض کیسوں میں زیرحراست ملزمان نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ سے ضمانتیں حاصل کرلیں تھی۔ جبکہ بعض کیسز میں کسٹمز کی عدالت نے قید کی سزا سنائی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Malik USA May 13, 2015 08:09pm
You are wrong Mr. Lawyer. Actually your client or her advisers are not taking it seriously and it is proved by her dress which she wear at every trial in the court. It shows she does not feel that she did any thing wrong. No doubt media is showing it but at the same same you are giving them chance to show some thing unusual on TV.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025