ایک بار پھر ہنزہ چلیں

پروفیشنلز کی حیثیت سے کئی بار وہ چیزیں بھی ہمارا دھیان بٹا دیتی ہیں، جو ہمیں متاثر نہیں کرتیں۔

لیکن ہنزہ میں خزاں کا موسم مجھے ہمیشہ یاد دلاتا ہے کہ مجھے وہیں واپس جانا چاہیے، جہاں سے مجھ پر فوٹوگرافی کا جنون طاری ہوا تھا۔

ہنزہ میں خزاں کی عکس بندی کرنا ہمیشہ سے ہی میرے لیے ایک مشکل کام رہا ہے۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں میرے کالج یا یونیورسٹی کے امتحانات میں صرف ہوجاتا، اور اس طرح میں کبھی بھی اس رنگا رنگ موسم کا لطف نہ اٹھا پاتا، اور اس طرح ایک طویل عرصے تک یہ خواہش ایک خواب رہی۔

اس سرسبز وادی کا خزاں کی آمد کے ساتھ ہی اپنا روپ مکمل طور پر تبدیل کر لینا میرے ہنزہ جانے کا سب سے بڑا سبب تھا۔ اور ہمیشہ کی طرح ہنزہ نے مجھے مایوس نہیں کیا۔

سات سالوں کے وقفے کے بعد ہنزہ آنا، جس کے دوران میں نے آرکیٹیکچر اسکول چھوڑا، فوٹوگرافی کمپنی شروع کی، شادی کی۔ ہنزہ پہنچ کر مجھے حیرت انگیز احساس ہوا جیسے میں پہلی بار یہاں آیا ہوں۔

سب کچھ تبدیل ہوچکا معلوم ہورہا تھا۔ جہاں پہلے کبھی شادابی تھی، وہاں اب نارنگی رنگ بکھرے ہوئے تھے۔

پوپلر کے درخت ٹھنڈی ہوا میں جھول رہے تھے، جو ان کے پیلے پتوں کو توڑتی، زمین پر لے جاتی، اور پھر ہوا میں اڑا دیتی۔

ان رنگوں کے درمیان خود کو موجود پا کر مجھے خزاں سے ایک بار پھر محبت ہوگئی۔

جن دنوں میں سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہے، تو یہی پتے سونے میں نہائے ہوئے لگتے ہیں۔ جو دریا گرمیوں میں چنگھاڑتا ہے، وہ سردیوں میں صرف ایک سرگوشی میں تبدیل ہوچکا ہے۔

مجھے یاد ہے جب یہاں پہنچنے پر میں نے اپنا بیگ کھولا، اور ہوٹل سے باہر جھانکنے پر وہ سرخ، پیلے، اور نارنگی رنگ دیکھے جنہیں صرف جاپانی اینی میٹڈ فلموں میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔

لیکن جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا، وہ خاموشی تھی، اور کس طرح ہر چند لمحوں بعد یہ خاموشی ہوا کی سرسراہٹ سے ٹوٹتی، اور اسی وقت پتے بھی بارش کے پانی کی طرح گرتے۔

کورین سیاحوں کے ایک گروپ نے پورا ہوٹل بک کروا رکھا تھا۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ وہ اتنا طویل سفر کر کے صرف یہ موسم دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ ان کے لیے یہ منظر روح افزاء تھا۔

میں وادی میں ایک نسبتاً آسان راستے پر چلتا جا رہا تھا۔ میں نے جو سیب توڑ کر کھائے، وہ اپنے ذائقے میں لاجواب اور بے مثال تھے۔

شہر میں رہنے والے ایک شخص کے لیے ہنزہ کے لذیذ سیبوں جیسی کسی چیز کا مفت ملنا نہایت حیران کن ہے، لیکن یہ مفت ہی تھی۔ آپ سارا دن یہ سیب کھاتے رہیں، اور کوئی آپ کو کچھ نہیں کہتا۔ ہنزہ کے پاس آپ کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ موجود ہوتا ہے۔

ہم آس پاس کی جگہیں بھی دیکھنے گئے، اور وہاں ہماری ملاقات کراچی کے ایک فوٹوگرافر اور سیاح گروپ سے ہوئی۔ ہم پسو گاؤں کے ان کے آفیشل دورے پر ان کے ساتھ ہو لیے۔

اس دفعہ ہم جن جگہوں پر گئے وہ ہماری پسندیدہ جگہیں تھیں۔ پتوں کے لیے ہوپر گاؤں، اور نظارے کے لیے ایگلز نیسٹ۔ ہم نے پسو پہنچنے کے لیے عطاآباد جھیل پار کی، اور ایک ویرانے میں قائم ہوٹل میں رات گزاری۔

ہمارے سفر کے سب سے یادگار لمحے بورت جھیل پر گزرے، جو کہ تین بڑے گلیشیئرز کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ نومبر کے مہینے میں اس جھیل میں خوشگوار فیروزی رنگ جھلکتا ہے۔


تصاویر بشکریہ علی خورشید اور نور العین علی۔

انگلش میں پڑھیں۔