دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2015
والدین کو چاہیے کہ اگر بچوں کی کوئی بات نہیں مانی جا سکتی تو انہیں جھڑکنے کے بجائے اس بارے میں تحمل سے سمجھائیں۔ — Creative Commons
والدین کو چاہیے کہ اگر بچوں کی کوئی بات نہیں مانی جا سکتی تو انہیں جھڑکنے کے بجائے اس بارے میں تحمل سے سمجھائیں۔ — Creative Commons

منگل کی صبح جب میں سو کر اٹھا تو ایک دل دہلا دینے والی خبر میرا انتظار کر رہی تھی: کراچی کے ایک اسکول میں دو بچوں کی ہلاکت کی خبر۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق جب ان بچوں کے والدین نے ان کی محبت تسلیم کرنے سے انکار کیا تو ان دونوں نے خود کشی کر لی۔

اس حادثے کے بارے میں سوچنا بھی میرے لیے نہایت تکلیف دہ ہے۔ یوں تو پولیس ابھی بھی شواہد کی جانچ پڑتال کر رہی ہے لیکن اس حادثے نے ایک سوال کو جنم دیا ہے، "اس کے لیے ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے؟"

والدین؟ معاشرہ؟ میڈیا؟ مخلوط تعلیم؟ اسلحہ کلچر؟ کون ذمہ دار ہے؟

یہ واقعہ بھلے کتنا ہی اچھوتا کیوں نہ ہو، اوپر موجود کسی بھی چیز کو اس کا اکلوتا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ابھی تفصیلات آنی باقی ہیں، مگر میرا خیال ہے کہ یہ ایک موزوں وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرے، اور خاص طور پر والدین کی تربیت سے متعلق مسائل پر بات کریں۔

1۔ "مخلوط تعلیم ذمہ دار ہے":

ہمارے سامنے دو بچوں کی اندوہناک موت کا واقعہ ہے۔ عام طور پر لوگ یہی کہیں گے کہ یہ مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہے، اور ہماری 'اخلاقی قدروں' کے برخلاف لڑکوں اور لڑکیوں کا میل جول اس کا ذمہ دار ہے۔ مذہبی دلیل اپنی جگہ، آئیں اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔

پڑھیے: کمسن طلبہ کی خود کشی: پستول لڑکی لائی تھی

میں نے سندھ کے ایک مقامی اخبار میں تین سال کام کیا ہے، جہاں میں اندرونِ سندھ کی خبریں لکھا کرتا تھا۔ مجھے ہمیشہ حیرانی ہوتی تھی کہ گھر سے بھاگنے (اور پھر کاروکاری میں مارے جانے یا کورٹ سے تحفظ کی اپیلیں کرنے) والے جوڑوں کے زیادہ تر واقعات اندرونِ سندھ کے دیہی علاقوں سے رپورٹ ہوتے تھے، جہاں مخلوط تعلیم یا صنفِ مخالف سے میل جول کا کوئی تصور نہیں۔

ان علاقوں کے لوگ کھلے عام صنفِ مخالف سے بات تک نہیں کر سکتے، لیکن پھر بھی وہ محبت کرنے اور گھر سے بھاگ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اگر مخلوط تعلیم کے بغیر اس طرح کے واقعات پیش آئیں تو پھر کس کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے؟ حقیقت میں ان علاقوں میں حد سے زیادہ پابندیوں اور پسند کی شادیوں کی شدید مخالفت ان واقعات کو جنم دیتی ہے۔

دیہی علاقوں کا موازنہ شہروں سے کریں تو آپ دیکھیں گے کہ شہروں میں گھر سے بھاگنے کے واقعات کم ہوتے ہیں کیونکہ یہاں پر لوگوں کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی نسبتاً زیادہ اجازت ہوتی ہے۔ اس لیے صرف مخلوط تعلیم کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہے۔

2۔ 'میڈیا ذمہ دار ہے':

کئی تحقیقات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ٹی وی پروگرامز بچوں کی نفسیات پر بے پناہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹی وی پروگرامز کے لیے لیبل وضع کیے گئے ہیں تاکہ والدین اپنے بچوں کو وہ پروگرام دیکھنے سے روک سکیں جنہیں دیکھنے سے ان کی شخصیت پر منفی اثر ہو سکتا ہو۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک میں بھی والدین اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کر پاتے، جبکہ ہمارے ملک میں تو والدین کو اس بارے میں علم بھی نہیں کہ ٹی وی پروگرامز کے بارے میں اس طرح کی پابندیاں وجود رکھتی ہیں۔

پڑھیے: لائیو کوریج کا چورن

جب میں اسکول میں تھا تو ہمارے وقت کے سب سے مشہور دو ویڈیو گیمز جی ٹی اے سین اینڈریاز اور میکس پین 2 ہم سب ہی نے کھیل رکھے تھے۔ ان دونوں ہی ویڈیو گیمز کی ریٹنگ "M"، یعنی میچور (بالغوں کے لیے) ہے، اور انہیں صرف 17 سال سے زائد عمر کے بچوں کو کھیلنا چاہیے کیونکہ ان ویڈیو گیمز میں خون، سخت تشدد، غلط زبان، جنسی مناظر، اور منشیات کا استعمال دکھایا جاتا ہے۔

مثالی طور پر تو ہمیں ہماری عمر کے حساب سے ان ویڈیو گیمز تک رسائی نہیں ہونی چاہیے تھی، لیکن ہمیں رسائی تھی، اور ان ویڈیو گیمز نے ضرور اپنے منفی اثرات ہمارے اذہان پر ڈالے ہوں گے۔ ظاہر ہے جب ماہرینِ نفسیات کسی ویڈیو گیم یا فلم کی ریٹنگ اور اسے دیکھنے کے لیے عمر کی حد مقرر کرتے ہیں، تو یہ بے وجہ تو نہیں ہوتا۔ نوجوان ذہن ان ویڈیوز میں دکھائے گئے تشدد سے باآسانی متاثر ہوجاتے ہیں لہٰذا والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ پر کیا کر رہے ہیں اور ٹی وی پروگرامز سے کیا سبق حاصل کر رہے ہیں۔

3۔ 'والدین ذمہ دار ہیں':

جی ہاں، بہت حد تک والدین ہی ذمہ دار ہیں۔ گھر پر اسلحہ رکھنا اور اس تک بچوں کی آسانی سے رسائی ہونا آخر کس کی غلطی ہے؟ حقیقت میں تو بلاوجہ گھر پر اسلحہ رکھنا ہمارے اسی اسلحہ کلچر کی دین ہے، جو ہمارے ملک کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔

والدین اس چیز کے لیے بھی ذمہ دار ہیں کہ ان کے بچے انٹرنیٹ پر کیا کرتے اور دیکھتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ امریکی حکومت کا جاری کردہ ویڈیو پیغام دیکھا تھا جس میں والدین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ گھر میں کمپیوٹر ایسی جگہ پر رکھا کریں جہاں پر ہر کوئی اسے دیکھ سکے، تاکہ بچے کچھ چھپا نہ سکیں۔ ویڈیو میں والدین سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر ان کے بچے انہیں اکیلا چھوڑ دینے کے لیے بحث کریں، تو پیچھے ہٹ جانے کے بجائے اپنی بات منوانی چاہیے۔

صرف بچوں پر نظر رکھنا نہیں، بلکہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشکل اور تباہ کن دور میں اپنے بچوں کی جسمانی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی دھیان دیں۔

پڑھیے: طلبہ کی 'خودکشی' : مزید خطوط و ڈرائنگز برآمد

میری عمر اور مجھ سے 10 سال چھوٹے بچوں کے والدین ضرور 1950 اور 1960 کی دہائی کے ہوں گے۔ ان والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دور ان کے دور سے بہت مختلف ہے۔ میڈیا، ٹیکنالوجی، اسکول، ماحول، سب کچھ مختلف ہے۔ بچوں میں خودکشی کے رجحانات اب پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کی صرف جسمانی ضروریات پوری کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیا ہے، مگر ان کے جذبات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اسی لیے بچے اپنے محسوسات اپنے والدین کے بجائے باہر والوں کو بتاتے ہیں۔ اب یہ باہر والا انسان کے روپ میں فرشتہ بھی ہوسکتا ہے، اور انسان کے روپ میں بھیڑیا بھی۔

میری تمام والدین سے گذارش ہے کہ اپنے بچوں کو سمجھیں: ان کی خواہشات، احساسات، اور اس کے خیالات کو سمجھیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی سے پیار کرتے ہیں، اور کسی انسان، کسی چیز، پلے اسٹیشن، لیپ ٹاپ، یا کسی بھی چیز کے لیے کسی کو قتل کر دیں گے یا خود کو ختم کر لیں گے، تو اسے سنجیدگی سے لیں۔

اگر آپ ان کی کوئی بات پوری نہیں کر سکتے، تو انہیں نرم انداز میں سمجھائیں، اور اپنے فیصلے کے حق میں دلائل دیں۔ تیز آواز میں بات کرنا، غصہ کر کے ان سے اپنی خواہش دبانے کو کہنا، یا ان کی بات پر توجہ نہ دینا بچوں میں منفی جذبات کو جنم دیتا ہے۔ کچھ بچے اس طرح دہل جاتے ہیں، لیکن زیادہ بے خوف بچے کبھی کبھی دلبرداشتہ ہو کر غلط قدم بھی اٹھا بیٹھتے ہیں۔

کراچی کے ان دو بچوں کے نام

کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے

حسرت ان غنچوں پہ ہے، جو بن کھلے مرجھا گئے

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (11) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 03, 2015 08:16pm
بچوں کو سیاسی بنا کر ایسے واقعات سے روکا جا سکتا ہے۔سیاسیات سےدلچسپی پیدا کر کے بچوں کو سوچنے سمجھنے اور کھرے اور کھوٹے میں پہچان کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ سوشل سائنسز مضامین میں دلچسپی بچوں کو نرسری جماعت سے ہی پیدا کرنی شروع کر دینی چاہیے۔ اس طرح بچوں کو پیار محبت اور مار دھاڑ سے دور رکھنے میں اہم ترین کامیابی ملنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ والدین کو بچوں کی عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لیے تربیت نہ کرنا ایسے واقعات کی اہم وجہ ہے۔ اگر والدین کو علم تھا کہ دونوں محبت کرتے ہیں اور مسلک کی بنیاد پر ایک ہونے میں مشکلات درپیش ہیں تو بھی بچوں کو سمجھایا جاتا تو واقعہ نہ ہوتا۔ والدین اور اساتذہ ذمہ دار ہیں اس واقعے کے۔ اساتذہ کا کام محض نصابی کتب پڑھانا ہی نہیں ہوتا بلکہ ڈسکشنز کے تحت مختلف موضوعات کا احاطہ کر کے بچوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا بھی ہوتا ہے۔ میرے سکول میں جمعہ کی چھٹی سے پہلے جمعرات کو پینتالیس منٹ کا ایک بزم ادب کا پیریڈ ہوتا تھا۔ اس پیریڈ میں ٹیچر کلاس سے خود عنوان چننے کا کہتا اور پھر اس پر رائے دی جاتی تھی۔ وہ زمانہ اب لدھ گیا ہے، کمرشلزم نے بیڑہ غرق کر دیا ہے آج۔
محمد ارشد قریشی (ارشی) Sep 03, 2015 11:28pm
بہت خوب جناب بلال صاحب
طلحہ Sep 03, 2015 11:43pm
میرے خیال میں صرف والدین ہی ذمہ دار ہیں۔ جب میں میٹرک میں تھا تو ْقیامت سے قیامت تک ریلیز ہوئی تھی، اس کے بعد ناکام عشق بھی کئےلیکن کبھی انتہائ قدم کا نہیں سوچا کیونکہ خاندان کی سپورٹ تھی۔
حسن امتیاز Sep 04, 2015 11:02am
صرف اور صرف والدین ہی ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ بچہ کو پیدا کرنے کا فیصلہ ۔ ان کا ۔۔۔۔۔۔ گھر میں کون کون سا میڈیا ہونا چاہئے ۔ (مثلا ٹی وی ،اخبارات، انٹریٹ وغیرہ) یہ فیصلہ والدین کا ۔۔۔۔۔کس بچہ میں شدت پسندی ہے ۔ یہ والدین کو سب سے پہلے معلوم ہوجاتا ہے ۔ ۔۔۔ اس کی شدت پسندی کو کنڑول کرنا ہے یا نہیں۔۔۔۔ یہ فیصلہ بھی والدین کا ہوتا ہے۔۔۔
سعود الحسن Sep 04, 2015 01:02pm
مکمل متفق
Muhammad Ayub Khan Sep 04, 2015 01:30pm
@سعود الحسن shadi larhkey larkiy ki hotiy hey ya waliden ki? pehley is ka faisala kareyN - phir mtaffiq ho jayeN-
Telmeez Sep 04, 2015 02:35pm
@حسن امتیاز مکمل متفق
Hanif Sep 04, 2015 07:10pm
والدین؟ معاشرہ؟ میڈیا؟ مخلوط تعلیم؟ اسلحہ کلچر؟ کون ذمہ دار ہے؟ They all are interrelated to each other and all are responsible for that such a horrible event
KHALID MAHMOOD KHAWAR Sep 05, 2015 09:43am
PLEASE DEMAND FOR A POST OF PSCYCHOLOGIST FOR EVERY SCHOOL WITH TASK OF GIVING PSCYCHOLGICAL TREATMENT TO OUR CHILDREN
Asif Malik Sep 06, 2015 04:34pm
ایک جامع اور حقیقت پر مبنی مضمون۔جس میں ان کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ آجکل بچوں میں عام ہیں۔ شکریہ بلال کریم
Sharminda Sep 07, 2015 03:17pm
Parents.