• KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C
  • KHI: Clear 25.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 18.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.1°C

سانحہ منیٰ: ’پاک سعودی تعلقات خراب کرنے کی کوشش‘

شائع October 6, 2015

لاہور: وزارت مذہبی امور نے رواں سال حج کے دوران سانحہ منیٰ میں جاں بحق و زخمی ہونے والے پاکستانی افراد سے متعلق تفصیلی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہے، جس میں بظاہر 'پاک-سعودیہ تعلقات کو خراب کرنے پر' درخواست گزار کو ہی جھاڑ پلا دی گئی ہے.

گذشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو منیٰ حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کی درست تعداد فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی.

درخواست گزار عارف ادریس نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اور ڈائریکٹر حج (جدہ) نے منیٰ حادثے سے متعلق اصل صورت حال کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

درخواست گزار کا موقف تھا کہ انٹرنیشنل میڈیا نے سانحہ منیٰ کے دوران 236 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی رپورٹ دی تھی لیکن وزارت مذہبی امور کی جانب سے غلط تعداد بتائی جارہی ہے.

مزید پڑھیں:'جاں بحق حاجیوں کی درست تعداد بتائی جائے'

عارف ادریس کا کہنا تھا کہ وزارت کے حکام جاں بحق حاجیوں کی درست تعداد بتانے سے اس لیے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنے فرائض قانون کے مطابق سرانجام نہیں دے رہے.

لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے مذکورہ کیس کی سماعت کی.

سماعت کے دوران جمع کرائی گئی تفصیلی رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) حج نے 'حاجیوں کی رہنمائی کے لیے' اپنی ٹیموں کو منیٰ میں مختلف مقامات پر تعینات کیا تھا اور یہ 'وہ واحد قانونی کام' تھا ،جس کی سعودی حکومت کی جانب سے اجازت دی گئی تھی.

وزارت نے اپنے جواب میں کہا کہ سانحہ کے بعد سعودی حکام نے تمام (پاکستانی) رضاکاروں کو ان کے کیمپوں تک محدود کردیا اور خود امدادی کاموں کا آغاز کیا، جس کے گواہ ہزاروں حجاج ہیں.

وزرات نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ جدہ میں حکام کی ایک ٹیم سانحہ منیٰ کے بعد سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچی.

وزارت مذہبی امور کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں جاں بحق حجاج کی تعداد 76 جبکہ زخمیوں کی تعداد 47 بتائی گئی ہے.

رپورٹ کے مطابق ڈی جی حج نے سانحے کے بعد میڈیکل ٹیمیں مکہ، منیٰ اور عرفات کے ہسپتالوں میں بھیجیں تاکہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کی جاسکیں، جبکہ مختف ہسپتالوں میں تعینات ٹیموں سے بھی وزارت کا مسلسل رابطہ تھا.

یہ بھی پڑھیں:سعودی تحقیقات پر اعتماد کا اظہار

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر کا کہنا تھا کہ وزارت مذہبی امور کی رپورٹ میں جاں بحق حجاج کے حوالے سے دی گئی تعداد 'بے بنیاد' ہے، دوسری جانب سانحہ کے زخمیوں کی تعداد بھی غلط بتائی گئی ہے جبکہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے.

درخواست گزار کی جانب سے 236 پاکستانی حجاج کے جاں بحق ہونے کے دعوے کے جواب میں وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا، " درخواست گزار کی جانب سے 236 پاکستانی حجاج کی ہلاکت کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ وزارت مذہبی امور اور جدہ میں موجود اس کے حکام سے متعلق ان کی معلومات کم اور ذاتی عناد پر مشتمل ہیں".

وزارت کا مزید کہنا تھا،"حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے اُن کی تصدیق کرے، جبکہ جاں بحق اور زخمی ہونے والے حجاج کی فہرست تصدیق کے بعد وزرات کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی."

یہ بھی کہا گیا کہ وزارت مذہبی امور، حجاج کے رشتہ داروں کی جانب سے دیئے گئے ناموں اور تعداد کو رپورٹ نہیں کرسکتی.

بعد ازاں کیس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی.

رواں برس 25 ستمبر کو حج کے دوران منیٰ میں ہونے والی بھگدڑ میں 769 افراد کے جاں بحق اور 934 کے زخمی ہونے کا واقعہ گزشتہ 25 سالوں کا بدترین واقعہ ہے۔

سعودی محکمہ شہری دفاع کے مطابق یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب منیٰ میں جمرات کی رمی کے لیے حجاج کے 2 بڑے گروپ مخالف سمتوں سے آنے والے راستوں پر ایک ساتھ آئے۔

یاد رہے کہ رواں برس ایک لاکھ 43 ہزار 6 سو 68 پاکستانی عازمین حج کی ادائیگی کے لیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025