پٹھان کوٹ حملہ : مسعود اظہر 'زیرِ حراست'

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2016
جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر — فائل فوٹو
جیش محمد کے امیر مولانا مسعود اظہر — فائل فوٹو

لاہور: کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی مبینہ گرفتاری کی رپورٹس کے بعد ہندوستان کے پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کی تحقیقات بظاہر ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔

خیال رہے کہ ہندوستان نے مسعود اظہر کو پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا۔

تاہم مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے گذشتہ روز پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے لاتعلقی کا اظہار کیا.

پنجاب کے مختلف علاقوں کے حکام اس قسم کی کسی بھی پیش رفت سے آگاہ نہیں ہیں جبکہ ابتدائی طور پر یہ رپورٹس سامنے آرہی تھیں کہ بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یار خان اور ملتان سے جیش محمد کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے.

بہاولپور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سرفراز احمد فلکی نے مولانا مسعود اظہر کی گھر پر نظر بندی یا اُن کی گرفتاری سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پٹھان کوٹ حملہ: پاکستان میں جیش محمد کے دفاترسیل

پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر کا کہنا تھا 'یہ وفاق کا معاملہ ہے اور ممکن ہے کہ وفاقی اداروں نے مسعود اظہر کو حراست میں لیا ہو'۔

بعض رپورٹس میں بتایا گیا کہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی رؤف اور ان کے بہنوئی کو 'حفاظتی تحویل' میں لے لیا گیا ہے، جبکہ جیش محمد کے دیگر درجنوں کارکنوں کی گرفتاری کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں۔

واضح رہے کہ ان گرفتاریوں کے حوالے سے خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کی جانب سے اپنے پاکستانی ہم منصب (ر) لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کو فراہم کی جانے والی "معتبر معلومات" کے بعد سامنے آئی ہیں۔

جبکہ مولانا مسعود اظہر کی 'حراست' کو بھی ہندوستان کی جانب سے پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے سے متعلق فراہم کردہ معلومات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

یہ حملہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے نواز شریف کی سالگرہ اور ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور آمد کے تقریباً ایک ہفتے بعد پیش آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیری گروپ نے پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری قبول کر لی

یاد رہے کہ اس سے قبل مولانا مسعود اظہر کو ہندوستان میں 1994 میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم ان کو اور دیگر دو افراد عمر شیخ اور مشتاق زرگر کو ہائی جیک کیے گئے ایک طیارے کے مسافروں اور عملے کے بدلے میں رہا کرنے پر مجبور کیا گیا، اس طیارے کو 1999 میں 'حرکت المجاہدین' سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے کھٹمنڈو سے ہائی جیک کیا تھا اور اسے افغانستان کے علاقے قندھار میں لینڈننگ کے لیے مجبور کیا گیا۔

عمر شیخ کو 2002 میں کراچی میں وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ مشتاق زرگر کے مظفر آباد میں موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ مولانا مسعود اظہر کے بھائی رؤف کو مذکورہ ہائی جیکنگ کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے۔

پاکستان آمد کے بعد مولانا مسعود اظہر نے 2000 میں حرکت المجاہدین سے علیحدگی اختیار کی اور اپنی ایک تنظیم جیش محمد قائم کی۔

بین الاقوامی دباؤ کے باعث سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 2002 میں جیش محمد پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے بعد مولانا نے اس کا نام تبدیل کر کے 'جماعت الفرقان' رکھا۔

مزید پڑھیں: 'پٹھان کوٹ ایئربیس میں تمام 6 حملہ آور ہلاک'

ایک اسکول ٹیچر کے بیٹے اور سابق ٹیچر مولانا مسعود اظہر، افغان جہاد میں سرگرم اور کئی جہادی معاہدوں کے مصنف تصور کیے جاتے ہیں اور ان کے حوالے سے خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 1990 میں کینیا اور صومالیہ کا سفر بھی کیا.

انھیں 2001 میں گھر پر نظر بند کیا گیا تھا تاہم جلد ہی عدالتی حکم پر رہا کردیا گیا۔

وہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد روپوش ہوگئے تھے، لیکن جنوری 2014 میں ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر مظفر آباد میں ایک ہندوستان مخالف ریلی میں وہ دوبارہ منظر عام پر آئے۔

خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ انھیں ممبئی حملوں کے بعد 'حفاظتی تحویل' میں لے لیا گیا تھا، جس کے باعث دونوں ممالک جنگ کے دہانے آگئے تھے، لیکن 2010 میں انھیں پھر رہا کردیا گیا۔

تاہم، وہ 2014 میں مظفرآباد میں ہونے والی ریلی میں منظر عام پر آنے سے قبل 7 سال تک عوامی نظروں سے اوجھل رہے۔

(اس رپورٹ کی تیاری میں بہاولپور سے مجید گل نے مدد فراہم کی ہے)

یہ خبر 14 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں