مردم شماری: غیر ملکیوں کا اندراج روکنا مشکل

شائع January 21, 2016

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے مشاہدے میں یہ بات لائی گئی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں شروع کی جانے والی قومی مردم شماری میں پاکستان میں موجود غیر ملکیوں کے ممکنہ اندراج کو خارج کرنے کا طریقہ کار موجود نہیں ہے، جن میں افغان شہری سر فہرست ہیں۔

کمیٹی نے اس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مردم شماری کے دوران غیر ملکیوں کے اندارج سے ہر ممکن طور پر بچا جاسکے۔

کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ مسئلے پر وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور ریاستوں اور سرحدوں کی وزارت سے مشاورت کی جائے گی تاکہ مردم شماری کو قابل اعتماد بنایا جاسکے۔

شماریات کے ماہر آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹس اسٹک (پی بی ایس) نے مذکورہ معاملے پر بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ مردم شماری کے دوران غلط تفصیلات فراہم کرنے والوں کو 6 ماہ قید کی سزا دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: مردم شماری اگلے سال مارچ میں ہوگی

اجلاس کے بعد پی بی ایس حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ 28 مارچ کے لیے پہلے سے طے شدہ مردم شماری کے لیے سیکیورٹی اقدامات کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔

بیورو ان کے اسٹاف کی سیکیورٹی کے حوالے سے فورسز سے مدد کا طلب گار ہے تاہم اب تک ان کی درخواست پر جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی اقدامات کو حتمی شکل نہ دی گئی تو مردم شماری میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ مردم شماری کے لیے مختص 14 ارب روپے کا بڑا حصہ، جو سروے کے لیے رکھا گیا تھا، سیکیورٹی اقدامات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اجلاس کے دوران سینیٹرز کمال علی آغا اور فتح محمد حسنی کا کہنا تھا کہ قومی مالیاتی کمیشن کی طرف سے وسائل کی تقسیم آئندہ کی مردم شماری کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔

اجلاس میں سرکلر ڈیتھ کے لیے حکومت کی جانب سے 480 ارب روپے کی ادائیگیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔

سینیٹر آغا کا کہنا تھا کہ 'یہ ادائیگیاں غیر قانونی ہیں کیونکہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا'۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں چھٹی مردم شماری اگلے سال کرانے کا اعلان

ادھر سینیٹر محسن عزیز نے بھی اتفاق کیا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے کی جانے والی ادائیگیاں غیر قانونی ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین نے آڈیٹر جنرل پاکستان رانا اسد امین کو کہا کہ 'موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد مالی سال کے آخری حصے میں ایک خط کے ذریعے ادائیگیاں کرنے کی کیا جلدی تھی؟'

جس پر رانا اسد امین نے ادائیگیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کے خلاف کوئی اقدم نہیں اٹھایا گیا.

انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ادائیگیوں کا آڈٹ کیا جاچکا ہے۔

یہ خبر 21 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025