کابل-طالبان براہ راست مذاکرات جلد ہونے کا امکان
اسلام آباد: پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات آئندہ چند روز میں پاکستان میں ہونے جارہے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران یاد دہانی کروائی کہ چار فریقی گروپ کے گزشتہ اجلاس کے دوران طے پانے والے معاہدے کے تحت مارچ کے پہلے ہفتے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست امن مذاکرات کے ممکنہ آغاز کا عندیہ دیا تھا۔
افغان امن مذاکرات کے مقام اور تاریخ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ملاقات کے انعقاد کے لیے کوششیں جاری ہیں، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کے پاس 'مذاکرات کی حتمی تاریخ کے حوالے سے معلومات نہیں ہیں'۔
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ماہ قطر کا دورہ کیا تھا، جس کا مقصد دوحا میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کی مذاکرات میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے قطر کی قیادت کی مدد حاصل کرنا تھا، اسے وائس آف امریکا نے 'جائز مذاکرات' کا نام دیا۔
علاوہ ازیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ہفتے کابل کے دورے کے موقع پر صدر اشرف غنی اور امریکی فوجی قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں، جسے افغان امن مفاہمتی عمل کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے اور جس کے بارے میں آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ' مصالحتی عمل کے مثبت نتائج کے امکان' کا اظہار کیا گیا۔
اُدھر وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے امریکا میں خارجہ تعلقات کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کا طالبان کے کچھ حلقوں پر اثرو رسوخ موجود ہے، جسے ان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں استعمال کیا جائے گا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اجلاس طلب کرنا چار فریقی گروپ کے تمام رکن ممالک کی 'مشترکہ ذمہ داری' ہے، اس گروپ کے اراکین میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'چار فریقی عمل تسلی بخش طریقے سے جاری ہے اور اس میں پیش رفت ہوئی ہے۔۔۔ تمام ممالک نے چار فریقی عمل پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے'۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے چار فریقی عمل میں دیگر ممالک کی شمولیت اور اس کو حجم کو بڑھانے کی تجویز کو مسترد کردیا۔
نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ افغان امن مذاکرات کے لیے چار فریقی گروپ کی کوششوں کا مقصد افغانستان سے تشدد کا خاتمہ اور وہاں امن کا قیام ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال افغانستان میں سال 2009 کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ پُر تشدد کارروائیاں ہوئیں اور یہ سلسلہ 2016 میں بھی جاری ہے۔
افغانستان کی جانب سے مذاکرات کار حکمت کرزئی نے کابل میں پاکستانی نمائندے سے بات چیت کے دوران مذاکرات کے عمل سے تشدد میں فوری کمی کے امکان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔
پاک-ہند تعلقات
دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہندوستانی وزیر دفاع منوہر پاریکر کے اُس بیان کو مسترد کردیا، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ پٹھان کوٹ حملے میں ملوث غیر ریاستی عناصر کو پاکستان کے ریاستی ادارے مدد فراہم کررہے ہیں جو ایک 'افسوس ناک اور غیر مفید' عمل ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے 'ہندوستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی ابتدائی معلومات پر تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے' اور پاکستانی تفتیشی ٹیم کا ہندوستان جا کر شواہد جمع کرنے کے حوالے سے بھی کام مکمل کیا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعاون اور افہام و تفہیم ہی موجودہ وقت کا تقاضا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ کے درمیان مذاکرات کی تایخ کو بھی حتمی شکل دی جا چکی ہے۔
یہ خبر 04 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔











لائیو ٹی وی