بھٹو سے 'بھائی' تک: صابری خاندان کی سیاسی قوالیاں

اپ ڈیٹ 29 جون 2016
یہ ان کے فن کا نکتہء کمال ہے کہ انہوں نے جہاں حمد و نعت، مذہبی قوالیاں، اور منقبتیں پڑھیں، وہیں سیاسی قوالیوں اور فلمی گیتوں کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ — فائل فوٹو
یہ ان کے فن کا نکتہء کمال ہے کہ انہوں نے جہاں حمد و نعت، مذہبی قوالیاں، اور منقبتیں پڑھیں، وہیں سیاسی قوالیوں اور فلمی گیتوں کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ — فائل فوٹو

امجد صابری کے والد اور چچا ہندوستان کے علاقے کلیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ دونوں بھائیوں نے پاکستان کی فلموں کے لیے بھی قوالیاں گائیں۔ ان کی پہلی فلمی قوالی ’’میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا‘‘ 1965ء میں فلم عشقِ حبیب کے لیے گائی گئی۔

1970ء میں فلم چاند سورج میں ان کی قوالی ’’محبت کرنے والو، محبت اس کو کہتے ہیں‘‘ شامل کی گئی۔ 1972ء میں فلم ’’الزام‘‘ میں ان کی قوالی ’’آئے ہیں تیرے در پہ‘‘ بے انتہا مقبول ہوئی۔ 1975ء میں فلم ’’بِن بادل برسات‘‘ میں ان کی قوالی ’’بھر دو جھولی میری یامحمد‘‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

1976ء میں فلم سچائی میں ’’تیری نظرِ کرم‘‘ والی قوالی کو اتنی زیادہ شہرت نہ مل سکی، لیکن 1982ء میں بننے والی فلم 'سہارے'، جس میں مرکزی کردار اداکار محمد علی نے ادا کیا تھا، اس فلم کی قوالی ’’تاجدارِ حرم‘‘ نے قوال بھائیوں کی اس جوڑی کو عروج پر پہنچا دیا۔

سینیئر صحافی خالد فرشوری کے مطابق مقتول امجد صابری نے بھی اس فلم میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ اس فلم کے پوسٹر پر حاجی غلام فرید صابری اور مقبول صابری کی تصویر بھی نمایاں طور پر شایع کی گئی تھی۔ ہمارا گمان ہے کہ اس قوالی کے دوران دونوں بھائیوں کے درمیان جو بچہ بیٹھا ہے وہ امجد صابری ہے۔ گو کہ اس فلم میں بہت سارے بچے ہیں۔

خالد فرشوری کا کہنا ہے کہ یہ فلم غلام فرید صابری نے بنوائی تھی۔ اگر آپ فلم میں اس قوالی کو تنقیدی نظر سے دیکھیں توابتداء میں تو مقبول اور غلام فرید دونوں نظر آتے ہیں لیکن تقریباً 40 سیکنڈ کے بعد کیمرہ صرف غلام فرید پر فوکس ہوجاتا ہے اور قوالی کی آخر تک ان ہی پر رہتا ہے۔ قوالی کا مکمل دورانیہ 9 منٹ 6 سیکنڈ ہے۔

صابری برادران کی وجہِ شہرت ان کی صوفیانہ قوالیاں رہی ہیں لیکن یہ دونوں بھائی صرف یہیں تک محدود نہ تھے، بلکہ ان کی ایک عشقیہ قوالی ’شب کو میرا جنازہ‘ بھی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی قوالی ’او شرابی چھوڑ دے پینا‘ مغربی اور مشرقی موسیقی کا ایک حسین امتزاج ہے

مقبول صابری کا ایک اور مشہور و معروف نغمہ جس پر ہندوستان و پاکستان کے سینیئر فنکاروں نے طبع آزمائی کی ہے وہ تھا۔

’’موہے آئی نہ جگ سے لاج میں اتنا،

زور سے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے۔‘‘

اس کی دُھن بھی انہوں نے ترتیب دی تھی اور پہلی بار گایا بھی تھا لیکن اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں ملک میں جمہوری ادوار کے فروغ اور سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لیے شاعروں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی دور میں شاعر سیاسی جلسوں میں اپنے انقلابی کلام کے ذریعے لوگوں کا خون گرماتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام سے امید کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی کہ لوگ سمجھتے تھے کہ بس انقلاب کی آمد آمد ہے اور آمریت کی روانگی۔

ان شعراء میں سب سے بڑا نام حبیب جالب کا تھا، اور فیض احمد فیض بھی شعراء کی اسی صف سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن شاعری صرف تحت اللفظ یا جوشِ خطابت تک ہی محدود تھی، گانے اور ترانے بنانے کا رواج ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ 70ء کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی نے ملک میں اقتدار سنبھالا تو پارٹیوں کے لیے موسیقی سے بھرپور ترانوں کا آغاز ہوا۔

اب تو عالم یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تو ایک طرف رہیں، مذہبی جماعتیں بھی نغموں اور ترانوں سے اپنی پارٹی کا پیغام عام کرنے میں مدد لیتی ہیں۔ آج کل پاکستان میں کام کرنے والی کون سی سیاسی پارٹی ہے جس کا سیاسی ترانہ نہ ہو، اور نامور گلوکاروں نے گایا نہ ہو۔

یہ 70ء کی دہائی تھی۔ اس دور میں پی پی پی کے ترانوں میں بھٹو صاحب کی شخصیت کو اجاگر کیا جاتا تھا، اس حوالے سے معروف نغمہ تھا ’’جیئے بھٹو جیئے بھٹو سدا ہی جیئے ذوالفقار علی بھٹو، سائیں سدا ہی جیئے‘‘ یہ سیاسی ترانہ بیک وقت بلوچی اور سندھی زبان میں تھا۔

جب اسے سننے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں بھٹو صاحب سے محبت کا اضافہ ہوتا تھا۔ پی پی پی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں 80ء کی دہائی میں اسی روایت کو آگے بڑھایا اور اپنے کارکنوں میں جوش بڑھانے کے لیے کئی مقبول سیاسی ترانے دیے جن میں ’’مظلوموں کا ساتھی الطاف حسین‘‘ اب تک مقبول ہے۔ لیکن 80ء کی ہی دہائی میں پیپلز پارٹی کا ترانہ ’’دلاں تیر بجاں‘‘ آج بھی اتنا ہی مقبول ہے۔

پیپلز پارٹی شاید وہ پہلی پارٹی ہے جس نے اپنے پیغام کو عام کرنے کے لیے قوالی گانے والوں کی مدد بھی حاصل کی اور قوالی دھن پر پہلی بار ایک نغمہ عوام کی سماعت تک پہنچا جس کے بول تھے:

’’صدا رہے آباد، بھٹو زندہ باد، بھٹو زندہ باد

نگری نگری دھوم ہے اس کی

گلی گلی میں یاد، بھٹوبھٹو زندہ باد۔

صدیوں کے جذبات کا دھارا

مزدوروں کا ساتھی پیارا، ہر کس نے فریاد

بھٹو زندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

جمہوریت کا متوالا، بستی بستی اس کا اجالا

ہر دل میں آباد، بھٹوزندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

وطن کا قائد نام ہے اس کا، ایک رہو پیغام ہے اس کا

قوم ہے اس سے شاد، بھٹو زندہ آباد، بھٹو زندہ آباد

اس کے گانے والے کوئی اور نہیں امجد صابری کے والد غلام فرید اور چچا مقبول صابری تھے۔ صابری خاندان شروع سے آخر تک لیاقت آباد میں ہی رہائش پذیر ہیں، اور لیاقت آباد میں پی پی پی کا حلقہ اثر نہ ہونے کے برابر ہے، اس دور میں پی پی پی کے لیے یہ قوالی گانا بڑی جرأت کاکام تھا۔

امجد صابری نے اپنے والد اور چچا کی قوالی میں شروع کی جانے والی اختراعات کو جوں کا توں رہنے دیا اور روایت سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا۔ انہوں نے بھی ایک سیاسی قوالی گائی لیکن یہ پی پی پی کے جیالوں کے لیے نہیں، بلکہ متحدہ کے کارکنوں کے لیے تھی، جس کے بول درج ذیل ہیں:

جبر کے اندھیروں میں، زندگی گذاری ہے،

اب سحر جو آئے گی، وہ سحر ہماری ہے۔

جذبہ حق پرستوں کا انقلاب لائے گا

خون حق پرستوں کا اپنا رنگ دکھائے گا

نعرہ حق پرستی کا اس ظلم کو مٹائے گا

کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں

کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے

ہم نے ایسے رُخ پھیرے آندھیوں کے طوفاں کے

دشمنوں کے ذہنوں پر ایک بھائی بھاری ہے

دشمنوں کے ذہنوں پر الطاف بھائی بھاری ہے۔

صابری برادران آرٹسٹ تھے، اور یہ ان کے فن کا نکتہء کمال ہے کہ انہوں نے جہاں حمد و نعت، مذہبی قوالیاں، اور منقبتیں پڑھیں، وہیں سیاسی قوالیوں اور فلمی گیتوں کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ غلام فرید صابری اور مقبول صابری کے انتقال کے بعد اس خاندانی فن کو امجد صابری نے مزید آگے بڑھایا۔

ان کے فن کو سیاسی عدسے سے دیکھنے کے بجائے صرف فن کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے، ورنہ فنکار کی ذات ہماری کوتاہ بینی کی وجہ سے محدود ہوجاتی ہے۔ بہرحال، یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان کی شہرت صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دنیا بھر میں ان کا چرچا تھا اور رہے گا۔

ان کی وفات بلاشبہ نہ صرف ملک، بلکہ دنیا بھر میں فنِ قوالی کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے، اور اس سے پیدا ہونے والا خلا جانے کیسے اور کب پورا ہوگا۔

آپ بھی بتائیے: آپ کے نزدیک صابری برادران کی سب سے بہترین قوالی کون سی ہے؟ تاجدارِ حرم، بھر دو جھولی میری یا محمد، یا کوئی اور جو یہاں درج نہیں۔ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (26) بند ہیں

Mohammed Asim Baig Jun 28, 2016 12:01pm
تاجدارِ حرم my favorite
فیصل سعید Jun 28, 2016 01:30pm
بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ
tahir quyyum Jun 28, 2016 01:50pm
بلاشبہ صابری خاندان نے قوالی کو اس کے عروج بام تک پہنچایا،،، مضمون ابھی بہت تشنہ ہے لیکن پھر بھی اچھی کاوش ہے کہ ایک مخصوص جگہ پر بہت سی چیزوں کو سمانے کی کوشش کی،،، بہت سے قوالیاں صابری برادران کی،،، پر میرا خیال ہے کہ اگر کی اس قوالی کا ذکر نہ کیا جاءے تو زیادتی ہوگی کہ،،، ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جاکر د یکھ،،، اللہ کے کے حضور میں سر کو جھکا کر دیکھ،،،۔
Azam Khan Jun 28, 2016 01:53pm
Bhar do jholi meri ya Muhammad . . .
موسٗی خان Jun 28, 2016 02:02pm
تاجدارِ حرم
ahmaq Jun 28, 2016 02:20pm
you are the best Akhtar-
Jahanzeb Jun 28, 2016 02:34pm
ساری اچھی ہیں اللہ سے دعا ہے امجدصابری کو جنّتُ الفردوس میں جگا عطا فرما
راضیہ سید Jun 28, 2016 02:56pm
میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا ( فلم عشق حبیب ، 1965) محبت کرنے والو ( فلم چاند سورج ، 1970) آئے ہیں تیرے در پہ ( فلم الزام ، 1972) بھر دو جھولی میری ۔۔( فلم بن بادل برسات ، 1975) تیری نظر کرم ( فلم سچائی ، 1976) تاجدار حرم ہو نگاہ کرم ، فلم سہارے 1982 )) آفتاب رسالت ( انڈین فلم ، سلطان ہند ، 1977) انھوں نے فارسی میں بھی قوالیاں پیش کیں جن میں چند قابل ذکر یہ ہیں نہ می دانم چی منزل بود چشم مست عجب انھوں نے قول ترانہ یعنی من کنت مولا فھذا علی مولا بھی پڑھی ، یہ ساری تفصیل میں نے اپنے ایک شائع شدہ آرٹیکل ’’ تاجدار حرم ہو نگاہ کرم ‘‘ ہم سب سے کاپی پیسٹ کی ہے اگر کوئی قاری مزید تفصیل چاہے تو میں فرید صابری پر لکھا ہوا اپنے آرٹیکل کا لنک شئیر کر سکتی ہوں تاہم اختر صاھب کی تحریر بھی مجھے اچھی لگی خاص طور پر سیاسی قوالیوں کے حوالے سے اور اس کے علاوہ جو خوب صورت قوالیاں جن کی ویڈیوز شئیر کیں ۔
samo Shamshad Jun 28, 2016 03:35pm
nice,,,,,,,,,,,,Bhardi jholy Ya Muhaamd
Imdad Hussain Tanoli Jun 28, 2016 04:21pm
Bohat Alla Malomat !
Syed Jun 28, 2016 04:30pm
نمبر ۱. تاجدارِ حرم نمبر ۲. بھر دو جھولی میری یا محمد ہمارا تو بچپن صابری برادران کی صوفیانہ قوالیاں سنتے گزرا اور اب جبکہ بڑھاپا دہلیز پر دستک دے رہا ہے، صابری برادران کا پڑھا ہوا کلام آج بھی خون گرما دیتا ہے...!
Razzak Abro Jun 28, 2016 05:48pm
Interesting write up. Singing political songs by Sabri brothers was an aspect of their career, but it never overshadowed their work. They remained equally popular among all segments of our society, nationalities and communities.
Mujahid ali Jun 28, 2016 06:43pm
امجد صابری ایک حوش قسمت انسان تہے جنکواللہ تعالی نے رمضان کے مہینے میں شھادت نصیب کی
Asim Jun 28, 2016 07:08pm
The best thing in yr article is that u kept it neutral.
princeofdhump Jun 28, 2016 07:10pm
@راضیہ سید please share your article
ahmaq Jun 28, 2016 08:06pm
@راضیہ سید i will love if you share it
Hassan Ali Jaffari Jun 28, 2016 09:49pm
حیرت و افسوس ہے کہ امجد صابری کو لبرل طبقہ اور اس کے لکھاری اس کو صرف ایک فنکار کے طور یاد یا متعارف کیے جا رہے ہیں ، امجد کے اس پہلو کا ذکر کہ جس کی وجہ سے اس مظلوم کا خون نا حق بہایا گیا ، اکثریت ہی اس سے جان بوجھ کر اجتناب کا مظاہرہ کر رہی ہے ، اختر بلوچ سمیت کیا کوئی بتاے گا کہ اب تک ہمارے ملک میں کتنے ایسے قوال و فنکار اس طرح شہید کیے گیے ہیں ---؟ امجد عالم دین و مفتی نہیں تھا ، مگر ان سے بڑھ کر ایک با عمل مسلمان کامل ، حقیقی عاشق خدا و رسول (ص ) تھا ، اور آج کے ابو جہلوں سے امجد کا یہ عشق رسول ایک لمحہ برداشت نہیں ہوتا تھا - میڈم نورجہاں کتنی بڑی فنکارہ تھیں ، ایسے ہی ایک رمضان میں ان کا انتقال ہوا تھا ، جنازہ میں شاید پچیس لوگ بھی نہیں تھے فن کتنا ہی بڑا ہو عشق کے آگے چھوٹا ہی رہتا ہے امجد پاکستان کے مسلمانوں میں ایک رول ماڈل مومن تھا ، وہ نمونہ اولیاء خدا تھا ، اور ان ہی کی طرح کسی بد بخت کے ہاتھوں شہید ہوا -
عائشہ بحش Jun 28, 2016 10:37pm
صابری فیملی کی تمام کی تمام قوالیاں اپنی مثال آپ ہیں۔ ’’قوالی‘‘ ہی صابری فیملی کے لئے وجہ شہرت بنائی ۔ اور ’’قوالی‘‘ ہی وجہ صدمہ ۔۔۔۔مجھے امجد صابری کی یہ قوالی بہت پسند تھی۔۔۔۔ کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے ہم نے ایسے رُخ پھیرے آندھیوں کے طوفاں کے دشمنوں کے ذہنوں پر الطاف بھائی بھاری ہے
S. Ali Yazdan Jun 29, 2016 11:03am
Bhar Do Jholi Meri Ya Muhammed (P.B.U.H) is my favorite Qawali.
Ata Muhammad Tabussum Jun 29, 2016 01:43pm
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ غلام فرید صابری اور مقبول فرید صابری جنرل ضیا الحق کے بھی چہیتے تھے۔ 80 کی ا دہائی میں جنرل صاحب اپنی خاص محفلوں میں دونوں کو بلاتے اور ان کا کلام خاص طور پر سنتے۔مقبول فرید صابری غزل بھی بہت اچھی گاتے تھے۔ اس لئے وہ ان محفلوں کی جان تھے۔ یہ بات خو د غلام فرید صابری نے بتائی۔ جب میں ان سے جسارت کے لئے بات چیت کررہا تھا۔
AnwarThinks Jun 29, 2016 03:57pm
لکھاری نے بہت اچھی معلومات بہم پہنچائ ہے جو قابل قدر ہے. بچپن سے صابری برادان کا مداح ہوں . انکا گایا ہوا بہترین کلام ( عبداللہ کے گھر سے جہاں میں نور بکھرنے والاہے) اور وہ دل ہی کیا تیرے ملنے کی جو دعا نہ کرے. سنسار میں باجے ﮈھول یہ دنیا میری طرح ہے گول کہ پیسہ بولتا ہے . ایک حقیقت ہے جو بزبان صابری برادر سے بیان ہوئ. سن عیسویں یاد نہیں
Hyder Naaz Jun 29, 2016 05:39pm
ان سب مشھور قوالیوں کے علاوہ ایک اور بھی قوالی ہے جو بد قسمتی سے صابری برادرز اُسے ریکارڈ نہیں کرا سکی.مگر میرے پاس وہ اب بھی موجود ہے,اس کے بول کچھ اسطرح ہیں... "پیرِ میراں پیرِمیراں میرے غوث العظم دستگیرا... یہ میرے اپنے ہاتھ کا ریکارڈ کیا ہوا ہے...
Hyder Naaz Jun 29, 2016 05:41pm
بہت ہی عمدہ تحریر جناب اختر صاحب...سلامت رہیں
عظیم Jun 29, 2016 07:07pm
سر لا مکاں سے طلب ھوءی. ..... ....... نمبر آ یک قوالی
OMAIR KHAN Jun 30, 2016 09:13am
sir-e-la makaan se talab hui , soey montaha wo chalay nabi..
wajid khan Jun 30, 2016 03:53pm
tajdare haram