اسلام آباد: ایران پر عائد عالمی پابندیاں رواں برس فروری میں اٹھالی گئیں تاہم پاکستان تہران کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو اب تک معمول پر نہیں لاسکا ہے۔

اب وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے بینکوں کے نمائندوں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ 1 ماہ کے اندر ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرلیں۔

اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نجی بینکوں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں وزیر تجارت خرم دستگیر بھی موجود تھے۔

اجلاس میں پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کے ساتھ تجارت کے دستیاب بینکنگ چینلز پر غور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان

اس سے قبل بھی ایران کے ساتھ بینکنگ چینل کی بحالی کے لیے کئی اجلاس منعقعد ہوچکے ہیں تاہم تاجر برادری کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود ان اجلاسوں کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔

وزیر تجارت نے کہا کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستان، ایران کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت دوبارہ شروع کرنے کے لیے وسائل و اسباب کا متلاشی ہے۔

مارچ 2016 میں ایرانی صدر باہمی تجارت کا حجم آئندہ پانچ برس کے دوران 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم لیے پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔

اس دوران دونوں ممالک نے آزادانہ تجارتی معاہدے کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے کے فریم ورک پر بھی اتفاق کیا تھا جس کے تحت اشیاء، خدمات اور سرمایہ کاری کے ذریعے تجارت کی جاسکے گی، یہ معاہدہ پانچ سالہ اسٹریٹجک تجارتی تعاون منصوبہ (2016-2021)کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور ایران مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر متفق

بینک کے نمائندوں کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ ایران پر عائد پابندیاں ختم ہونے کے باوجود نجی بینک ایران کے ساتھ براہ راست بینکنگ چینلز استوار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

عام طور پر نیشنل بینک آف پاکستان دیگر بینکوں کی قیادت کرتا ہے، تاہم اس نے بھی اب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔

پاکستان کے نجی بینکوں کے نمائندے چند ماہ قبل ایران کے دورے پر گئے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ ایران میں پاکستان کے ساتھ تجارت کے لیے کتنا زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے۔

ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سینٹرل بینک آف ایران نے باہمی تعاون کو بڑھانے اور براہ راست بینکنگ لنکس کو استوار کرنے کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔

تاہم بینکنگ چینلز کی بحالی کے حوالے سے پیش رفت انتہائی سست روی کا شکار ہے، پاکستانی تاجر ایران کو اپنی مصنوعات کی برآمد کے لیے بہترین مارکیٹ کے طور پر دیکھتے ہیں، جو قریب بھی ہے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی کم آتے ہیں۔

ماضی میں ایران کو خاص طور پر باسمتی چاول کی برآمد سے تاجروں کو لاکھوں ڈالرز آمدنی ہوتی تھی اور پاک-ایران تجارت کا حجم جو کبھی ایک ارب ڈالر سے زائد ہوا کرتا تھا عالمی پابندیوں کی وجہ سے اب صرف 27 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی بینکوں کو ایران سے تجارت کی اجازت

ایران کو برآمد کی جانے والی پاکستانی مصنوعات کی تعداد بھی محدود ہے اور کل برآمدات کا 63 فیصد حصہ چاول پر مشتمل ہے۔

2010 میں ایران کو 18 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی گئیں جو کم ہوکر 2014 میں صرف 4 کروڑ 30 لاکھ رہ گئی جبکہ ایران سے درآمدات کا حجم 88 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے نیچے آتے ہوئے 2014 میں 18 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہ گیا اور اس کمی کی بنیادی وجہ ایران پر اقوام متحدہ کی اقتصادی پابندیاں تھیں۔

پاکستانی وزارت تجارت جامع طور پر ایران کی وزارت تجارت، صنعت اور زراعت سے رابطے میں ہے تاکہ 2006 میں سرحد پر تجارتی سہولتوں کو بڑھانے کے لیے طے پانے والے ترجیحی تجارتی معاہدے (پی ٹی اے) کو مکمل طور پر فعال کیا جائے۔

پاکستان نے ایران سے ٹیرف اور نان ٹیرف رکاوٹوں کے حوالے سے بھی تفصیلات طلب کی ہیں جبکہ گزشتہ 4 سال کے دوران ایران نے اپنی تجارت کا رخ ہندوستان اور ترکی کی جانب موڑ دیا ہے اور ان دونوں ممالک سے ایران کی تجارت فروغ پارہی ہے۔

وزیر تجارت نے حال ہی میں پاک-ایران سرحد پر تفتان کے مقام کا دورہ کیا اور وہاں تجارتی سرگرمیوں کے لیے دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیا، انہوں نے سرحد پار تجارت کو بہتر بنانے کے لیے انفرااسٹرکچر کی تجدید کا بھی وعدہ کیا۔

پاکستان اور ایران کے درمیان طے پانے والے 5 سالہ اقتصادی منصوبے کے مطابق وزارت تجارت نے آزادانہ تجارتی معاہدے کے فریم ورک کا مسودہ ایران کو بھجوا دیا ہے تاہم اب تک ایران کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

یہ خبر 29 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں