کوئٹہ: پاکستان اور افغانستان کے سرحدی حکام کے درمیان چمن کے مقام پر ’باب دوستی‘ کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر بے نتیجہ ختم ہوگئے۔

باب دوستی کی بندش کی وجہ سے دونوں جانب لوگوں کی آمد و رفت معطل ہوگئی، جبکہ اس سے افغانستان میں نیٹو سپلائی بھی شدید متاثر ہوئی۔

افغان مظاہرین کی جانب سے’باب دوستی‘ پر حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے سرحد کو بند کردیا گیا تھا اور پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ افغان مظاہرین نے پاکستانی پرچم نذر آتش کیا اور باب دوستی پر پتھراؤ کیا جس کے بعد یہ اقدام اٹھانا پڑا۔

پاک افغان سرحدی حکام کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی فرنٹیئر کور بلوچستان کے لیفٹیننٹ کرنل چنگیز خان نے کی۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی پرچم نذر آتش کیے جانے کے بعد پاک-افغان بارڈر بند

پاکستانی وفد کی جانب سے افغان حکام کو بتایا گیا کہ سرحد پر پاکستان کے پرچم اور قائد اعظم کی تصاویر کو نذر آتش کرنے کے واقعے سے پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی جس کے بعد حکام کو چمن میں باب دوستی بند کرنا پڑا۔

ایک سینئر پاکستانی عہدے دار نے بتایا کہ کرنل محمد علی کی سربراہی میں اجلاس میں شرکت کرنے والے افغان وفد نے واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ برادر مسلم ممالک کے درمیان نفرت پیدا کرنے کیلئے دشمن کی کوئی چال ہے۔

اجلاس میں طے پانے والی سفارشات کو اسلام آباد اور کابل میں اعلیٰ عہدے داروں کے پاس بھیجا جائے گا۔

کرنل علی نے کہا کہ افغان حکومت کی جانب سے میں اس متنازع واقعات کی مذمت کرتے ہیں، بلاشبہ وہ ایک افسوس ناک عمل تھا اور ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے کی جانے والی سازشوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں طے پانے والی سفارشات کو اسلام آباد اور کابل میں موجود اعلیٰ حکام کے پاس بھیجی جائیں گی جہاں اس معاملے پر حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔

چمن میں باب دوستی کی بندش کے بعد سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاک افغان سرحدی حکام کے درمیان اب تک 4 فلیگ میٹنگ ہوچکی ہیں۔

مزید پڑھیں:پاک۔افغان بارڈر حکام کی فلیگ میٹنگ بے نتیجہ

چمن بارڈر کراسنگ کی بندش کی وجہ سے دونوں جانب نیٹو کنٹینرز اور دیگر سامان لے جانے والے ٹرکس کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں جبکہ ہزاروں لوگ بھی سرحد کی دونوں جانب پھنس کر رہ گئے ہیں۔

لنڈی کوتل میں موجود نمائندہ ڈان کے مطابق اسی طرح کا ایک اجلاس طورخم بارڈر کراسنگ پر بھی ہوا اور پاک افغان حکام نے دونوں ممالک کے سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان ہونے والے حالیہ تصادم پر بات کی جس میں سرحد پر موجود بعض پاکستانی عمارتوں کو نقصان بھی پہنچا تھا۔

مذاکرات کے دوران پاکستانی حکام نے ان عمارتوں کی مرمت کا مطالبہ کیا جنہیں نقصان پہنچا تھا اور ساتھ ہی افغان حکام کو یہ بھی بتایا کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستانی ڈرائیورز اور مسافروں کو افغان سرحد پر حقارت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

افغان حکام نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکام کو افغان شہری کی ملک بدری یا لاش کی حوالگی کے حوالے سے پشگی اطلاع دینی چاہیے۔

واضح رہے کہ پاکستانی قبائلی افراد نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے بلوچستان کے حوالے سے بیان کی مذمت کے لیے چمن کے سرحدی علاقے میں ریلی نکالی تھی۔

دوسری جانب افغان شہریوں نے بھی ملک کی 97 سالہ یوم آزادی کے موقع پر ایک ریلی نکالی اور سرحد کے قریب واقع قصبے اسپین بولدک سے گزرتے ہوئے چمن بارڈر پر باب دوستی کے سامنے جمع ہوگئے۔

تاہم وہاں پاکستانی شہریوں کو دیکھ کر یہ ریلی پاکستان کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگئی اور ریلی کے شرکاء نے چمن میں 'باب دوستی' پر پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے پتھر برسائے، جس سے باب دوستی کے شیشے ٹوٹ گئے۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے افغان شہریوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے اجتناب کیا تاہم سرحد کو بند کردیا گیا۔

یاد رہے کہ روزانہ 10 سے 15 ہزار مال گاڑیاں پاک ۔ افغان بارڈر سے چمن اور ویش منڈی میں داخل ہوتی ہیں۔

یہ خبر 31 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (0) بند ہیں