ایک ہندوستانی اور اسٹوڈنٹ بریانی کا افیئر
اگر آپ میری طرح کھانے پینے کے بے انتہا شوقین ہیں تو ایسے کئی پکوان ہیں جو آپ کے منہ میں پانی لا سکتے ہیں اور آپ کو روز مرہ کے 'دیسی کھانے' سے ہٹ کر کچھ آزمانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
میرے اور میرے شوہر کے لیے یہ نیا انتخاب ہمیشہ ایشیائی پکوان ہوتے ہیں، یعنی چائنیز، تھائی، اور کبھی کبھی اگر ہم باہر کھانا کھانے جائیں تو ویتنامیز۔ ہم گذشتہ چند سالوں سے دنیا میں کئی جگہ رہ چکے ہیں؛ جرمنی میں دو سال اور اب عرب امارات کے دارالحکومت ابو ظہبی میں قیام کے دوران ہم نے دنیا کے کئی ثقافتی کھانوں کا مزہ چکھا ہے۔
مگر ہم نے ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کے کھانے تب تک نہیں کھائے تھے جب تک کہ ہم مشرقِ وسطیٰ نہیں آئے۔
دونوں ملکوں کی سیاسی رسہ کشی اور تاریخ کو ایک طرف رکھا جائے، تقسیم سے لے کر اب تک کے خراب حالات کا پردہ ہٹایا جائے تو اس کے نیچے ہمیں کچھ ایسی یکساں چیزیں نظر آتی ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ثقافتوں کی آپس میں مشابہت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ بہرحال دونوں ممالک برِصغیر سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ماضی میں ایک ہی ساتھ تھے۔ اس یکسانیت کی واضح مثال ان کے کھانے ہیں۔
پاکستانی کھانے شمالی ہندوستان جیسے ہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پاکستانی کھانوں میں مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ذائقے بھی شامل ہوتے ہیں۔ مغلئی پکوان، جنہوں نے صدیوں پہلے ہندوستان پر مغل حکومت کے دوران جنم لیا، میں پاکستانی، حیدرآبادی، اور شمالی ہندوستانی مصالحے اور پکانے کے طریقوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
ابو ظہبی، جو کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا مسکن ہے، اور جہاں ہمیں غیر ملکی پکوانوں کے ساتھ ساتھ اتنی اقسام کے دیسی کھانے بھی مل جاتے ہیں کہ ہمیں ہندوستان میں اپنے کچن کی یاد تک نہیں آتی، وہاں اچھے کھانوں کی تلاش میں ایک دن ہم اسٹوڈنٹ بریانی تک جا پہنچے۔

منہ میں ایک چمچ ڈالتے ہی میں اس پکوان کی گرویدہ ہوگئی۔ اس کی تیاری میں جن ذائقوں، مصالحوں اور پکانے کے طریقوں کا استعمال ہوا تھا، نے ہم پر سحر طاری کر دیا۔ میں نے آج تک ایسی بریانی کبھی نہیں کھائی تھی جو کہ آپ کی حسِ ذائقہ کے لیے اس قدر اطمینان بخش ہو، جتنی کہ اسٹوڈنٹ بریانی تھی۔ ہر نوالے کے ساتھ مزید کھانے کا دل کر رہا تھا۔
جب آپ ابو ظہبی کے ٹورسٹ کلب ایریا میں اسٹوڈنٹ بریانی تک پہنچیں، تو سرخ رنگ کا ایک چمکدار 'اسٹوڈنٹ بریانی' سائن آپ کا استقبال کرتا ہے جس کے نیچے سرخ و سفید چھتری موجود ہے۔ یہ بہت زیادہ فینسی جگہ نہیں، دو منزلہ عمارت کسی اور دور کی لگتی ہے جیسے اسے بنایا ہی اس مقصد کے لیے گیا ہو کہ وہ آپ کو گزرے وقت میں واپس لے جائے۔
ریسٹورنٹ اپنے سادہ مگر خوشگوار اندرونی سجاوٹ، میزوں، دوستانہ اسٹاف اور دستیاب کھانوں کی ایک طویل فہرست کے ساتھ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی مکمل توجہ صرف ایک چیز پر ہے — کھانا۔
اب میری حیرانگی میں اضافہ ہونے لگا تھا، میں نے سوچا کہ میں اسٹوڈنٹ بریانی کی تاریخ کھوجوں گی، کہ اسے اسٹوڈنٹ بریانی کیوں کہا جاتا ہے، اس کی ابتداء کیسے ہوئی، آخر اس کے پیچھے کوئی تو راز ہوگا؟
اور میں غلط نہیں تھی۔ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے، اور بہت اثرانگیز کہانی ہے۔
ایک شخص حاجی محمد علی نے 1969 میں کراچی کے علاقے صدر میں ایک چھوٹے سے ہوٹل کا آغاز کیا تھا، جہاں آس پاس کے تعلیمی اداروں سے طلباء آیا کرتے تھے۔ اس کا نام 'کیفے اسٹوڈنٹس' رکھا گیا تھا۔
کھانا گھر میں پکایا جاتا، بریانی میں محبت اور جذبہ شامل ہوتا، اور یوں سخت محنت کی بدولت آہستہ آہستہ حاجی محمد علی کا کاروبار بڑھنے لگا۔ 1976 میں انہوں نے اتنا بڑا ہوٹل کھولا جس میں ایک سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ کیفے اسٹوڈنٹس کا نام جلد ہی بدل کر اسٹوڈنٹ بریانی رکھ دیا گیا، اور پھر حاجی محمد علی نے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی برانڈ اب ہر جگہ مشہور ہو چکی تھی۔

حاجی محمد علی اب زندہ نہیں رہے، مگر ان کا ورثہ اسٹوڈنٹ بریانی کی صورت میں قائم و دائم ہے، اور اپنے گاہکوں کی حسِ ذائقہ کو آج بھی لبھا رہا ہے۔
ابو ظہبی میں ایسے ہندوستانی اور پاکستانی ریسٹورنٹس کی کوئی کمی نہیں جس میں نہ صرف ہندوستانی اور پاکستانی، بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ بھی حلیم، بریانی اور سالن کھانے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ریسٹورنٹس چھوٹے ہوں یا بڑے، شہر میں ہوں یا مضافات میں، یہ دن کے کسی بھی وقت آپ کو بھرے ہوئے ہی ملیں گے۔
ایک پاکستانی ڈرائیور جو ایک دن مجھے کام پر لے جا رہا تھا، مجھ سے باتیں کر رہا تھا اور ہماری گفتگو کھانوں کی طرف چلی گئی۔ اس نے پوچھا "انڈیا میں کیا پسند کرتی ہیں میڈم جی؟"
میں نے کہا، "مرغ مکھنی، دال مکھنی اور پنیر، اور ہاں، گھر کی بریانی۔"
"ارے، آپ کی مرغ مکھنی تو کمال ہے، لیکن ہماری بریانی تو چکھیے، سب بھول جائیں گی۔"
اس نے فوراً کریمز ریسٹورنٹ کے بارے میں بتایا جن کے پاس کئی اقسام کے ہندوستانی اور پاکستانی کھانے دستیاب ہوتے ہیں، مگر یہ کہ پاکستانی کھانے ضرور آزمانے چاہیئں۔ اسٹوڈنٹ بریانی نے مجھ پر اپنا جادو چلا دیا تھا، اور اب میں کھانوں کے بارے میں مشورے بڑے غور سے سننی لگی تھی۔
پاکستانی دسترخوانوں پر گائے، بکری، مرغی اور مٹن کا گوشت عام طور پر کھایا جاتا ہے۔ دسترخوان بچھا کر کھانا عام طور پر اس وقت کھایا جاتا ہے جب مہمان کافی تعداد میں ہوں۔ کچھ لوگ تخت کا استعمال بھی کرتے ہیں جن پر دو زانو ہو کر بیٹھا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں بھی ایسی ہی کسی دعوت کا حصہ بن پاؤں گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں کئی کھانے ایک ہی جیسے ہیں۔ ان میں سب سے یکساں چیز شاید چاول ہیں۔ چاولوں کے ساتھ دال یا گوشت کا سالن دونوں ملکوں میں عام ہے۔ نہاری ایک اور طرح کا گوشت ہے جسے پوری رات پکایا جاتا ہے تاکہ کھانے سے قبل بالکل درست حد تک گل جائے۔ نہاری پاکستان کی وہ ڈش ہے جو ہندوستان کے کئی علاقوں میں کھائی جاتی ہے۔
میں جہاں کام کرتی ہوں، وہاں میرے کچھ ساتھی پاکستانی ہیں اور کھانے کے وقفے کے دوران مجھے اکثر پاکستانی کھانوں کی خوشبو آتی ہے، تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ آج بھی بریانی لائی گئی ہے۔ میں یہاں پر واحد ہندوستانی ہوں، اور فوراً ان لوگوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاتی ہوں جو دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
دن میں ایک گھنٹے کے لیے ہمارا کھانے کا کمرہ دنیا کی مختلف ثقافتوں کے درمیان کھانوں کے ذریعے بھائی چارے کا مرکز بن جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 'مرد کے دل کا راستہ معدے سے جاتا ہے'۔ جب ہندوستان اور پاکستان کی بحیثیت قوم بات آئے، تو ہمارے دل شاید درست جگہوں پر نہ ہوں، مگر کبھی کبھی کسی ہندوستانی شخص کے دل تک پاکستان کی بریانی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے، اور کبھی کبھی کسی پاکستانی کے دل تک ہندوستانی مرغ مکھنی کے ذریعے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں