اسلام آباد: قومی اسمبلی میں بالآخر ’ہندو میرج بل 2016‘ منظور کرلیا گیا جس کے بعد پاکستان میں رہنے والے ہندووں کی شادی کے حوالے سے جامع اور قابل قبول قانون کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگئی۔

مذکورہ بل قومی اسمبلی میں وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل نے پیش کیا جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا البتہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی لال چند ملہی نے اس پر معمولی اعتراضات اٹھائے۔

انہوں نے ہندو شادی کی منسوخی سے متعلق بل کے کلاز 12(iii) کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ اسمبلی میں ہندو میرج بل منظور

مذکورہ کلاز کے مطابق کوئی بھی شادی اس وقت ختم تصور کی جاسکتی ہے جب میاں یا بیوی میں سے کوئی دوسرے سے مسلسل دو سال یا اس سے زائد عرصے تک کے لیے علیحدگی اختیار کرلے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر رمیش کمار نے ڈان کو بتایا کہ بل میں اب بھی خامیاں موجود ہیں تاہم اس کی منظوری موجودہ حکومت کا قابل ستائش اور جرات مندانہ اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’66 سال سے پاکستان میں ہندووں کی شادی سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے اور اس بل کی منظوری حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کا بڑا کارنامہ ہے‘۔

واضح رہے کہ مذکورہ بل گزشتہ تین سال سے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی منظوری کر منتظر تھا جسے 8 فروری 2016 کو منظوری ملی جبکہ کمیٹی کے چیئرمین چوہدری محمود بشیر ورک کا کہنا ہے کہ تاخیر اس لیے ہوئی کیوں کہ بل میں کئی تکنیکی باتیں موجود تھیں۔

مزید پڑھیں:ہندو میرج بل کی ایک شق پر تنازع

انہوں نے کہا کہ یہ ایک مکمل بل ہے جو ہمارے ہندو شہریوں سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا منظوری سے قبل تمام اسٹیک ہولڈر بشمول اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی مشاورت کی گئی تاکہ اس کے نفاذ کے بعد کوئی اعتراض سامنے نہ آئے۔

بل میں علیحدگی اختیار کرنے والے ہندو جوڑوں کو دوبارہ شادی کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ بل کی شق 17 کے مطابق ’ہندو بیوہ خواتین کو اپنی مرضی سے دوبارہ شادی کرنے کا حق حاصل ہوگا تاہم یہ ضروری ہے کہ اس کے شوہر کے انتقال کو کم سے کم 6 ماہ گزر چکے ہوں‘۔

قانون کی خلاف ورزی پر جرمانوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب ہندو خاندان کے لیے شادی کا سرٹیفکیٹ شادی پرت رکھنا لازمی ہوگا کیوں کہ اب تک ہندو برادری میں شادی کو کسی قانونی دستاویز سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ بل کو اب مزید بحث اور غور کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔

یہ خبر 27 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں