شیطان گوٹ جھیل: سوات میں واقع شیطان کا کونا

ہماری پشتو زبان میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’غر کہ لوڑ دے خو پہ سر ئے لار دہ۔‘‘ یعنی پہاڑ چاہے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، اسے سر کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہوتا ہے۔

اس کہاوت کا اندازہ مجھے سوات کی خوبصورت ترین جھیل ’شیطان گوٹ‘ تک پہنچنے کے بعد ہوا جب سطح سمندر سے 13,404 فٹ کی بلندی پر واقع فلک بوس پہاڑ، اوبڑ کھابڑ راستے طے کرنے کے بعد ہمارے قدموں تلے آگئے۔

شیطان گوٹ جھیل بلاشبہ سوات کی خوبصورت ترین جھیل ہے۔ گُوَٹ پشتو کا لفظ ہے جس کے معنی کونا یا کارنر کے ہیں۔ شیطان گوٹ کے لیے اردو میں موزوں ترین متبادل ’شیطان کا کونا‘ اور انگریزی میں 'Devil's Corner' ہے۔ یہ ایک طویل ٹریک ہے اور اس کی سیر کے لیے کم از کم تین دن درکار ہوتے ہیں۔

پہلے دن کا سفر کیدام سے جبہ تک تقریباً چھے سے سات گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ وادیء کیدام سے جھیل تک دو راستے نکلتے ہیں۔ پہلا راستہ قبلہ رو کھڑے ہو کر کیدام خوڑ (خوڑ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ندی کے ہیں) سے بائیں طرف مسلسل سیڑھیوں کی صورت میں جنگل تک جا نکلتا ہے، تقریباً ایک گھنٹے پر مشتمل یہ سفر ایک آزما مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے آگے 30 سے 35 منٹ کی مسافت پر گھنا جنگل شروع ہوتا ہے۔ جنگل سے آگے جبہ تک پانچ سے چھے گھنٹوں میں رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

شیطان گوٹ جھیل کا پانی جو آگے چل کر کیدام خوڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے — امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل کا پانی جو آگے چل کر کیدام خوڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے — امجد علی سحاب

گلونو بانڈہ کی ایک خوبصورت تصویر — تصویر امجد علی سحاب
گلونو بانڈہ کی ایک خوبصورت تصویر — تصویر امجد علی سحاب

راستے میں ایسے کئی گلیشیئرز ملتے ہیں جن کے نیچے سے سرنگ کی شکل میں پانی اپنا راستہ نکالتا ہے — تصویر امجد علی سحاب
راستے میں ایسے کئی گلیشیئرز ملتے ہیں جن کے نیچے سے سرنگ کی شکل میں پانی اپنا راستہ نکالتا ہے — تصویر امجد علی سحاب

دوسرا راستہ اسی طرح قبلہ رو کھڑے ہوکر کیدام خوڑ سے دائیں جانب ایک جیپ ٹریک کی صورت میں جنگل سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر ختم ہوتا ہے۔ یوں اگر فور بائے فور گاڑی کا سہارا لیا جائے تو سیاح پورے ایک گھنٹے کی صبر آزما مسافت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔

وہاں سے جبہ تک دوسرے دن سر بانڈہ (جسے مقامی زبان میں سرپَنَقال بھی کہتے ہیں) تک باآسانی سفر طے کیا جاسکتا ہے۔

دوسرے دن سیاح قریب پانچ سے چھے گھنٹوں کی ایک ہلکی پھلکی ہائیک کے بعد سربانڈہ باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ راستے میں دو جھیلوں کے آثار ملتے ہیں جنہیں کسی وقت میں جبہ ڈنڈ یعنی جبہ جھیل اور شین ڈنڈ یعنی سبز جھیل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

جبہ جھیل گلیشیئر کے سرکنے اور نیچے آنے کی وجہ سے اب ختم ہو چکی ہے جبکہ سبز جھیل 2010 کے سیلاب کی وجہ سے ریت اور بڑے بڑے پتھروں کی وجہ سے بھر چکی ہے اور اب وہاں پانی کسی چھوٹی سی ندی کی شکل میں دبے پاؤں گزرتا ہے۔

سربانڈہ کی طرف پیش قدمی جاری ہے — تصویر امجد علی سحاب
سربانڈہ کی طرف پیش قدمی جاری ہے — تصویر امجد علی سحاب

جبہ بانڈہ میں چرواہوں کے کوٹھے — تصویر امجد علی سحاب
جبہ بانڈہ میں چرواہوں کے کوٹھے — تصویر امجد علی سحاب

تورہ چینہ (کالا چشمہ) جس کا پانی ہر مرض کی دوا تصور کیا جاتا ہے — تصویر امجد علی سحاب
تورہ چینہ (کالا چشمہ) جس کا پانی ہر مرض کی دوا تصور کیا جاتا ہے — تصویر امجد علی سحاب

سر بانڈہ پہنچتے ہی پہلی نظر چرواہوں کے گارے مٹی کے بنے دو کوٹھوں پر پڑتی ہے۔ ایک کوٹھے میں چرواہے خود رہائش اختیار کرتے ہیں جبکہ دوسرے کو مسجد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ساتھ ہی ایک کھلا ڈلا میدان ہے جس میں چرواہوں کی بھیڑ بکریاں چرتی رہتی ہیں۔ مذکورہ میدان چونکہ سرسبز و شاداب ہے، اس لیے اس میں جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں کیمپنگ کی جاسکتی ہے۔

ماہِ ستمبر کے وسط سے یہاں باقاعدہ طور پر برف باری کا آغاز ہو جاتا ہے اور چرواہے بھی موسم کی شدت کا مقابلہ نہ کر پانے کی وجہ سے میدانی علاقوں کا رُخ کرلیتے ہیں۔

راستے میں میٹھے پانی کے جھرنے اور چشمے بکثرت ملتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب
راستے میں میٹھے پانی کے جھرنے اور چشمے بکثرت ملتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب

جبہ جھیل جو اب گلیشیئر کے نیچے سرکنے کی وجہ سے معدوم ہوچکی ہے — تصویر امجد علی سحاب
جبہ جھیل جو اب گلیشیئر کے نیچے سرکنے کی وجہ سے معدوم ہوچکی ہے — تصویر امجد علی سحاب

سبز جھیل 2010ء کے بدترین سیلاب کے بعد ریت سے بھر چکی ہے — تصویر امجد علی سحاب
سبز جھیل 2010ء کے بدترین سیلاب کے بعد ریت سے بھر چکی ہے — تصویر امجد علی سحاب

ایک ٹکٹ میں دو مزے والی بات تو سب نے سنی ہوگی مگر سربانڈہ میں ایک ٹکٹ میں تین مزے ملتے ہیں۔ یہاں ایک نہیں، دو نہیں بلکہ سلسلہ وار تین جھیلیں سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ انہیں ہم بجا طور پر چھوٹی، درمیانی اور بڑی جھیل کہہ سکتے ہیں۔

دراصل مذکورہ تینوں جھیلوں کو ایک اکیلی شیطان گوٹ جھیل پانی مہیا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سربانڈہ کی بڑی جھیل میں شرقاً غرباً چھوٹے بڑے گلیشئرز بھی حصہ بقدرِ جثہ پانی ڈالتے رہتے ہیں۔

لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ سربانڈہ کی بڑی جھیل شیطان گوٹ سے پانی حاصل کرتی ہے۔ اس کے بعد بالترتیب تین چار سو میٹر کی دوری پر یہی پانی درمیانی جھیل، آگے دو تین سو میٹر کی دوری پر چھوٹی جھیل اور آخرکار ایک چھوٹی سی آبشار کی صورت میں کیدام خوڑ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

سربانڈہ کی چھوٹی جھیل — تصویر امجد علی سحاب
سربانڈہ کی چھوٹی جھیل — تصویر امجد علی سحاب

سربانڈہ کی بڑی جھیل — تصویر امجد علی سحاب
سربانڈہ کی بڑی جھیل — تصویر امجد علی سحاب

تیسرے دن شیطان گوٹ جھیل کے لیے رخت سفر باندھ کر تین سے چار گھنٹے کی صبر آزما مسافت کا قصد کیا جاتا ہے۔ تیسرے دن کا سفر اس حوالے سے مشکل ترین تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ اسے مسلسل چڑھائی کی شکل میں طے کرنا پڑتا ہے۔

یہاں تین مشکل مرحلوں پر باقاعدہ طور پر سانس بحال کرنے کے لیے دس سے پندرہ منٹ تک کا آرام کیا جاتا ہے۔ راستے میں دو دفعہ اوپر سے نیچے گرتا پانی ایک مسحور کن احساس پیدا کرتا ہے، جس کی پھوار ایک الگ سماں باندھ دیتی ہے۔

سطح سمندر سے ہزاروں فٹ بلندی پر واقع ہونے کے باوجود شیطان گوٹ جھیل کا پانی حیرت انگیز طور پر نارمل ہے، نہ زیادہ ٹھنڈا اور نہ گرم۔

شیطان گوٹ جھیل کی طرف پیش قدمی جاری ہے — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل کی طرف پیش قدمی جاری ہے — تصویر امجد علی سحاب

شیطان گوٹ جھیل کا پانی آبشار کی شکل میں نیچے آ رہا ہے — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل کا پانی آبشار کی شکل میں نیچے آ رہا ہے — تصویر امجد علی سحاب

جھیل کے احاطے میں پندرہ ستمبر کی رات کو ہونے والی برف باری کے آثار نمایاں تھے مگر ہماری ٹیم نے جھیل پر پہنچتے ہی نہ صرف اس کا پانی پیا بلکہ اس سے منھ ہاتھ بھی دھوئے۔

ٹیم کا ایک ممبر تو جھیل کے پانی سے نہانے کی خاطر باقاعدہ طور پر بچوں کی طرح ضد پر اڑ گیا۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جھیل سے نکلتے ہی پانی اتنا ٹھنڈا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اسے پھر چھونا مشکل ہوجاتا ہے۔

شیطان گوٹ جھیل کو تین اطراف سے پہاڑیاں گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کا پانی ایک چھوٹی سی آبشار کی صورت میں نیچے گرتا ہے جو دور دور سے دکھائی دیتا ہے۔

اس کے صاف و شفاف پانی میں دس بارہ میٹر تک چھوٹے بڑے پتھر صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس حسین نظارے میں رہی سہی کسر نیلا امبر، اس میں آنکھ مچولی کھیلتے ابر کے چھوٹے بڑے ٹکڑے اور برفیلی چوٹیاں پانی کی سطح پر اپنا عکس چھوڑ کر پورا کر دیتی ہیں۔

شیطان گوٹ جھیل کا آخری اور مشکل ترین مرحلہ — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل کا آخری اور مشکل ترین مرحلہ — تصویر امجد علی سحاب

شیطان گوٹ جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر — تصویر امجد علی سحاب

شیطان گوٹ جھیل — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل — تصویر امجد علی سحاب

سوات کی بیشتر جھیلوں کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فرضی کہانی مشہور ہے لیکن شاید شیطان گوٹ وہ واحد جھیل ہے جس کے حوالے سے کوئی فرضی کہانی مشہور نہیں۔

ہاں، جبہ اور سربانڈہ کے بارے میں یہ بات عام طور پر سنائی دی کہ وہاں جو بچہ یا نوجوان شریر ہو یا پھر کسی ادھیڑ عمر شخص سے دوسرے لوگ تنگ ہوں، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "میاں نے شیطان گوٹ جھیل کا پانی پیا ہے۔"

کوئی نہیں جانتا کہ اتنی پیاری جھیل کا نام شیطان گوٹ کیسے پڑا، البتہ سب یہی چاہتے ہیں کہ اس جھیل کا کوئی اچھا سا نام رکھ دیا جائے۔

علاقائی لوگوں کا خیال ہے کہ جھیل تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں، اس لیے اس کا نام "شیطان گوٹ" پڑگیا۔ اردو میں اس حوالے سے ایک عام سی کہاوت "شیطان کی آنت" مستعمل ہے جو بہت لمبی چیز یا بات جو ختم ہونے کو نہ آئے، بہت طویل کہانی یا داستان، یا پھر بیزاری کی حد تک طویل چیز کے معنوں میں مستعمل ہے۔

شیطان گوٹ جھیل — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل — تصویر امجد علی سحاب

شیطان گوٹ جھیل کا صاف و شفاف پانی، نیلا امبر اور ہوا میں بادل کے تیرتے ٹکڑے — تصویر امجد علی سحاب
شیطان گوٹ جھیل کا صاف و شفاف پانی، نیلا امبر اور ہوا میں بادل کے تیرتے ٹکڑے — تصویر امجد علی سحاب

یوں تو صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ بالعموم اور سوات کے بالخصوص مہمان نوازی میں مشہور ہیں مگر اپر سوات اور خاص کر کیدام کے لوگ مہمانوں کی راہ میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوتے ہیں۔

ہر بانڈہ (دیہات) کے لوگ دوسروں پر سبقت لے جانے کی غرض سے سیاحوں کو گڑ والی کڑک چائے یا پھر گاڑھی اور میٹھی چھاچھ سے تواضع کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔

شیطان گوٹ کے ساتھ ساتھ سربانڈہ کی تینوں جھیلوں کی سیر جون کے مہینے سے لے کر ستمبر کے وسط تک کی جاسکتی ہے۔

پندرہ ستمبر کے بعد شیطان گوٹ جھیل کو گھیرے میں لینے والے فلک بوس پہاڑ برف کی سفید چادر اوڑھ کر سال بھر شیطان گوٹ کو پانی دینے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔