خیرپور میں کھجور کی کٹائی: ایک تصویری کہانی

خیرپور میں کھجور کی کٹائی: ایک تصویری کہانی

نادیہ آغا

کجھور کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ موزوں ماحولیاتی حالات کی بدولت سندھ کا شہر خیرپور کجھور کی ملکی پیداوار میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ خیرپور کی معیشت میں زراعت کافی اہمیت کی حامل ہے اور لوگوں کو ذرائع آمدن فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

خیرپور میں کھجور کی کٹائی — نادیہ آغا
خیرپور میں کھجور کی کٹائی — نادیہ آغا

نہ صرف خیرپور کے مضافاتی علاقوں، بلکہ پنجاب اور بلوچستان سے بھی لوگ خیرپور کا رخ کرتے ہیں اور کھجور کے باغات کے قریبی علاقوں میں قیام پذیر ہو جاتے ہیں۔ مئی کی آواخر میں کھجور کٹائی کا سیزن نزدیک آتے یہ اندرونی ہجرت شروع ہو جاتی ہے۔

کجھور کی کٹائی کو خطے کی معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے— نادیہ آغا
کجھور کی کٹائی کو خطے کی معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے— نادیہ آغا

ابلی ہوئی کجھور دھوپ میں سکھائے جانے کے لیے تیار ہے — نادیہ آغا
ابلی ہوئی کجھور دھوپ میں سکھائے جانے کے لیے تیار ہے — نادیہ آغا

کھجور کی کٹائی کے دوران مردوں کے ساتھ صرف عمر رسیدہ عورتیں ہی حصہ لیتی ہیں کیوں کہ نوجوان عورتوں کو باغوں میں کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔

ثقافتی پابندیوں کے باعث نوجوان عورتوں کو کھیتوں سے دور رکھا جاتا ہے— نادیہ آغا
ثقافتی پابندیوں کے باعث نوجوان عورتوں کو کھیتوں سے دور رکھا جاتا ہے— نادیہ آغا

تمام کام صنفی بنیادوں پر سر انجام دیا جاتا ہے: مردوں کی جانب سے کھجور کے گچھوں کو درختوں سے اتارے جانے کے بعد خواتین ان گچھوں سے کھجور کو نکالتی ہیں۔

مردوں کے درمیان بھی کام تقسیم ہوتا اور اجرت میں فرق ہوتا ہے۔ دہہاڑی انتہائی کم ہوتی ہے، خاص طور پر اگر ہم اس کا مقابلہ کھجور کے باغ سے ہونے والی کمائی سے کریں۔ وہ افراد جو کھجور کو اپنے کاندھوں اور پیٹ پر اٹھاتے ہیں انہیں ایک دن کے صرف 350 روپے کے قریب مزدوری دی جاتی ہے۔

کھجوروں کو درختوں سے اتارے جانے کے بعد مزید پراسیسنگ کے مقام پر لے جایا جاتا ہے— نادیہ آغا
کھجوروں کو درختوں سے اتارے جانے کے بعد مزید پراسیسنگ کے مقام پر لے جایا جاتا ہے— نادیہ آغا

کجھوروں کو پانی میں زرد رنگ ملا کر 20 منٹ تک ابالا جاتا ہے اور پھر سکھایا جاتا ہے — نادیہ آغا
کجھوروں کو پانی میں زرد رنگ ملا کر 20 منٹ تک ابالا جاتا ہے اور پھر سکھایا جاتا ہے — نادیہ آغا

وہ افراد جو باورچی خانوں میں چھوہارے بناتے ہیں انہیں تقریباً 500 روپے دیے جاتے ہیں۔ وہ افراد جو درخت پر چڑھ کر کھجوریں توڑ لاتے ہیں انہیں سب سے زیادہ، یعنی تقریبً 700 روپے دیے جاتے ہیں، جس کی وجہ اس کام کا سب سے زیادہ مشکل اور پرخطر ہونا ہے۔ عورتیں سب سے کم، یعنی 250 روپے فی دن کما پاتی ہیں۔

چونکہ وہاں بنیادی ٹیکنالوجی کی کمی ہے اس وجہ سے تمام کام ہاتھوں سے ہی کیا جاتا ہے، اس طرح ان مزدوروں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

درجہ حرارت اکثر اوقات تقریباً 48 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے جبکہ مزدور ننگے پاؤں اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔

وہ افراد جو باورچی خانے میں کام کرتے ہیں، وہاں ان کے جلنے کا خطرہ بھی رہتا ہے مگر کسی حادثے کی صورت میں علاقے میں کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔

درخت پر چڑھ کر کھجور اتارنا جان لیوا حد تک خطرناک ہے— نادیہ آغا
درخت پر چڑھ کر کھجور اتارنا جان لیوا حد تک خطرناک ہے— نادیہ آغا

خیرپور میں اصیل جنس کی کھجور کی کثیر تعداد میں پیداوار ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ تر کھجور کو خشک کر کے چھوہاروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے— نادیہ آغا
خیرپور میں اصیل جنس کی کھجور کی کثیر تعداد میں پیداوار ہوتی ہے۔ ان میں زیادہ تر کھجور کو خشک کر کے چھوہاروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے— نادیہ آغا

ٹریکٹر وہ واحد جدید چیز ہے جو ان کھجور کے باغات پر استعال ہوتی ہے — نادیہ آغا
ٹریکٹر وہ واحد جدید چیز ہے جو ان کھجور کے باغات پر استعال ہوتی ہے — نادیہ آغا

ایک نوجوان ڈوکے (خام کھجوریں) گچھے سے الگ کر رہا ہے۔ ہر ایک گچھے کا وزن 15 سے 17 کلو گرام ہوتا ہے — نادیہ آغآ
ایک نوجوان ڈوکے (خام کھجوریں) گچھے سے الگ کر رہا ہے۔ ہر ایک گچھے کا وزن 15 سے 17 کلو گرام ہوتا ہے — نادیہ آغآ


نادیہ آغا تدریس سے وابستہ ہیں، اور یونیورسٹی آف یارک، انگلینڈ سے وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ AghaNadia@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔