کراچی: وفاقی حکومت نے ملک بھر میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث 2 مزید جہادی تنظیموں جماعت الاحرار اور لشکرِ جھنگوی العالمی کو کالعدم قرار دے دیا۔

حکام کے مطابق جماعت الاحرار اور لشکرِ جھنگوی العالمی کو ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر کالعدم قرار دیا گیا۔

ترجمان وزارتِ داخلہ نے بھی اس اقدام کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فیصلہ چند روز قبل ہی کیا گیا۔

سندھ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سینئر افسر نے قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کی ویب سائٹ پر موجود کالعدم تنظیموں کی ترمیم شدہ فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ 11 نومبر کو جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

نیکٹا کی ویب سائٹ پر موجود فہرست کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک 63 تنظیموں پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

اس فہرست میں حالیہ اضافہ اُس وقت ہوا جب دورانِ تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ جماعت الاحرار اور کالعدم لشکر جھنگوی العالمی نامی دونوں تنظیمیں فرقہ وارانہ دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ہیں، شہر کراچی میں بھی گزشتہ دنوں اس قسم کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی جن میں سے اکثر میں لشکرِ جھنگوی العالمی ملوث تھی۔

مزید پڑھیں: جماعت الاحرار عالمی دہشت گرد تنظیموں میں شامل

مختلف سیکیورٹی، انٹیلی جنس، تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے موصول ہونے والی معلومات کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ان تنظیموں کو کالعدم قرار دیئے جانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔

29 اکتوبر کو ناظم آباد میں محرم کی مجلس میں ہونے والے حملے میں تین بھائیوں سمیت 5 افراد کی ہلاکت کے بعد سندھ پولیس اور محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے بھی یہی احکامات دیئے گئے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں مجلس پر فائرنگ، 5 افراد ہلاک

حکام کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’اگر جماعت الاحرار کی حالیہ کارروائیوں کو دیکھا جائے تو یہ تنظیم سول ہسپتال کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے جس میں وکلاء سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت الاحرار سندھ اور بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج بن چکی ہے اور ملک کے جنوبی حصے میں زیادہ سرگرم نظر آتی ہے۔

دونوں تنظیموں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے کے پیچھے ان دونوں صوبوں کے اداروں کی جانب سے دیا جانے والا ردعمل شامل تھا جو ان کی کارروائیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ 'انہیں نہیں لگتا کہ ان تنظیموں کو کوئی فرق پڑے گا لیکن اس فیصلے سے تفتیش کاروں اور خفیہ اداروں کو ان کے خلاف پیش قدمی کرنے میں مدد ملے گی'۔

یہ خبر 19 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں