شام کا حلب— کیا سے کیا ہوگیا
شام کا شہر حلب طویل خانہ جنگی کے بعد آخرکار صدر بشار الاسد کی حامی فورسز کے قبضے میں آگیا ہے۔
شام کے شمال مشرق میں واقع یہ شہر پانچ سال پہلے شروع ہونے والی خانہ جنگی سے قبل تیزی سے ترقی کرنے والا صنعتی اور مالیاتی حب تھا۔
برسوں کی لڑائی کے دوران فضائی بمباری، دوبدو جھڑپوں اور دیگر واقعات نے اس شہر کا نقشہ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے جن کی تصاویر کا موازنہ ہلا دینے والا ہے۔
خانہ جنگی کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ افراد اس شہر میں پھنس گئے، ہزاروں ہلاک اور سیکڑوں یہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
ذیل میں وہ تصاویر دی جارہی ہیں جو حلب میں آنے والی تباہ کن تبدیلی کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔
یہ آج کا حلب ہے، جہاں پانچ سال تک خانہ جنگی جاری رہی اور حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپیں معمول کا حصہ تھیں، جس کے دوران فضائی بمباری بھی ہوتی رہی۔
لاکھوں افراد اس شہر میں پھنس گئے، ہسپتالوں اور اسکولوں کو تباہ کردیا گیا، شہر کے مشرقی حصے میں جہاں باغی گروپ کا قبضہ آخر تک رہا، سب سے زیادہ تباہی ہوئی۔
مگر حلب ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، یہ شہر صدیوں تک پھلتا پھولتا رہا اور شام کا سب سے بڑا صنعتی حب سمجھا جاتا تھا، اسے دنیا کے چند قدیم ترین انسانی آبادی والے شہروں میں سے ایک بھی قرار دیا جاتا ہے جسے یونیسکو نے 1986 میں عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔
2006 میں اس شہر میں 23 لاکھ افراد رہائش پذیر تھے اور یہ اُس وقت پھیلتے بازاروں، سرسبز باغات اور بڑے شاپنگ مالز کا گھر تھا۔
یہ شہر اپنے تاریخی مقامات اور قدیم بازاروں کے ساتھ ساتھ تیزی سے پھیلتے جدید شہری مقامات کا بھی امتزاج تھا۔
مغربی کمپنیوں نے یہاں اپنے آﺅٹ لیٹس کھول رکھے تھے، شہر کے قلب میں واقع شہابا مال شام کے چند مقبول ترین اور بڑے شاپنگ مالز میں سے ایک تھا، جہاں فیشن اسٹورز، ریسٹورنٹس، ہوٹل، سینما اور بہت کچھ تھا۔
آج یہ شاپنگ مال ویران اور ملبے کے ڈھیر سے بھرا ہوا، یہ داعش کا جیل خانہ بھی رہی مگر پھر دوسرے باغی گروپس نے اس شہر پر قبضہ کرلیا۔
جب بشار الاسد شام کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے ملک کے لیے امید کی علامت بننے کا وعدہ کیا تھا، مگر داخلی سیاسی تنازعات اور کرپشن نے ملک کو گھٹنوں کے بل گرا دیا۔
بشار الاسد کے دور کے آغاز میں حلب مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے شہروں کے مقابلے میں زیادہ بڑا شہر بن گیا تھا۔
امیہ مسجد حلب کی چند مشہور ترین اور خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے، یونیسکو نے اسے مسلم دنیا کی چند خوبصورت مساجد میں سے ایک قرار دیا تھا۔
مگر اب اس گیارہویں صدی کی مسجد کے بیشتر حصے ملبے سے زیادہ کچھ نہیں، شامی ریاستی ادارے اس کا ذمہ دار باغیوں کو قرار دیتے ہیں، جبکہ باغی گروپ حکومتی آرٹلری پر الزام عائد کرتے ہیں۔
اس تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاح شہر کے تاریخی آثار کو دیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر 2009 کے بعد سے سیاحت میں کمی آتی گئی۔
شام کا قدیم ترین ہوٹل برین 2014 میں بند ہوا تھا، حلب میں واقع اس ہوٹل میں آخری دو برسوں میں کوئی رہنے نہیں آیا جبکہ یہ حکومتی اور باغی فورسز کے درمیان فرنٹ لائن سمجھا جاتا تھا۔
اس ہوٹل میں چند بڑی مشہور شخصیات مقیم رہیں، جن میں امریکی ارب پتی ڈیوڈراک فیلر، لارنس آف عربیہ اور معروف مصنفہ اگاتھا کرسٹی وغیرہ شامل ہیں۔
خانہ جنگی کے آخری چند دنوں کو مقامی رہائشیوں نے 'قیامت' قرار دیا، جس کے دوران لوگوں کو شدید ترین بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک مقامی استاد نے کچھ ایسے منظرکشی کی ' خواتین اور بچوں کی کراہیں اور چیخیں گلیوں میں سنی جاسکتی ہیں'۔
تبصرے (3) بند ہیں