اسلام آباد: ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کا کہنا ہے کہ اسے پاناما پیپرز اسکینڈل اور بہاما لیکس کے معاملے پر جاری کیے گئے نوٹسز کے جواب میں بہت ہی کم جوابات موصول ہوئے ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے ان 444 افراد کو نوٹسز بھیجے گئے تھے جنہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لیے دنیا کے 9 مختلف ممالک یا ریاستوں میں آف شور کمپنیاں بنائی تھیں۔

ٹیکس سے بچنے کے لیے 271 کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ، بہاماس میں 25، پاناما میں 84، سیشلز میں 44، نیوئے میں 10، سماوا میں 4، موریشس میں 3، اینگوئیلا میں 2 اور جیرسی میں ایک کمپنی بنائی گئی ۔

ٹیکس چھپانے کے لیے جنت تصور کیے جانے والی ریاستوں میں سے تین — برٹش ورجن آئی لینڈ، اینگوئیلا اور جیرسی— براہ راست برطانیہ کے کنٹرول میں ہیں جب کہ مجموعی طور پر 444 افراد میں سے 274 انہی تین جگہوں پر کمپنیوں کے مالک ٹھہرائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آف شور کمپنیز کے مالکان میں 259 پاکستانیوں کے نام شامل

رواں ماہ 12 دسمبر کو عالمی ادارے انٹرنیشل ڈویلپمنٹ ایجنسی آکسفیم ( آئی ڈی اے او)نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں برطانیہ کے ماتحت مزید 2 جزائر کیمین آئی لینڈ اور برمودا کی بھی ٹیکس سے بچنے والی جگہوں کے طور پر نشاندہی کی گئی۔

ادارے کی جانب سے جاری کردہ بدترین ٹیکس سہولت فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں برمودا سرفہرست تھا، جب کہ اس فہرست میں کیمین آئی لینڈ، نیدرلینڈ، سوئٹرزلینڈ، سنگاپور، آئرلینڈ، لگزمبرگ،کیوریساؤ، ہانگ کانگ، قبرس، بہاماس، جیرزی، بارباڈوس، موریشس اور برٹش ورجن آئی لینڈ بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ یہ ممالک منافع کی منتقلی، جارحانہ ٹیکس نظام اور سوئیٹ ہارٹ ڈیلز کے نام پر وسیع پیمانے پر ٹیکس سے بچنے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ایک پاکستانی عہدیدار کے مطابق ان کے پاس رپورٹ میں موجود 15 ممالک میں سے صرف 5 میں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں ہونے کے کیسز موجود ہیں۔

تاہم، عہدیدار نے مزید بتایا کہ رپورٹ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد نیدرلینڈ، آئرلینڈ، سنگاپور، لگزمبرگ، ہانگ کانگ اور سوئٹزرلینڈ میں بھی آف شور کمپنیوں کی مالک ہوسکتی ہے۔

ایف بی آر کے نوٹسز

ایف بی آر کی جانب سے پاناما میں آف شور کمپنیاں رکھنے والے 336 افراد کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے،جن میں ان افراد سے ملکیت، ٹیکس معاملات اور اداروں کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔

ایف بی آر کے محکمے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن آف ان لینڈ روینیو کو صرف 57 افراد کی جانب سے جواب موصول ہوا ہے جنہوں نے آف شور کمپنیاں رکھنے کی تصدیق کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: ایف بی آر کا تحقیقات کا فیصلہ

ان میں سے 23 افراد نے ایف بی آر کو اپنے جواب میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں رہائش پذیر نہیں ہیں اس لیے وہ پاکستانی حکام کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے جب کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر 39 افراد نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پاناما پیپرز میں بتائی گئی آف شور کمپنیز سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔

عہدیداروں کے مطابق آف شور کمپنیاں رکھنے والے 11 افراد کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کو جاری کیے گئے نوٹسز کا جواب ان کی بیواؤں کی جانب سے بھیجا گیا ہے جب کہ کچھ خواتین اپنے شوہروں کی جانب سے آف شور کمپنیز رکھنے والی بات سن کر حیران بھی ہوئیں۔

ایف بی آر کے مطابق مختلف وجوہات کی بناء پر 31 کیسز کی تحقیقات ملتوی کردی گئی جب کہ 37 افراد کو نوٹسز نہیں بھیجے گئے۔ صرف 14 افراد نے آف شور کمپنیز رکھنے کا اعتراف کیا مگر انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ کمپنیاں صرف کاغذات میں ہی وجود رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

آیف بی آر نے 60 نوٹسز ٹیکس انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے ملک بھر میں مختلف لوگوں بھیجے جانے تھے۔ ان میں سے 10 افراد نے نے ان نوٹسز کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ دیگر 8 افراد نے نوٹسز پر قانونی مسائل اٹھائے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کے تناظر میں صرف 60 افراد کو جرمانوں کے ساتھ اظہار وجوع کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت پہلا شوکاز نوٹس میں 25 ہزار روپے جرمانہ بھیجا گیا۔

بہامالیکس میں 150 پاکستانیوں کے نام سامنے آئے مگرتحقیقات میں نشاندہی کے بعد صرف 108 افراد کے خلاف مقدمات بنائے گئے ، جنہیں انکم ٹیکس کے سیکشن 176 کے تحت نوٹسز جاری کیے گئے۔

ایف بی آر کے ٹیکس انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کو تاحال صرف 11 افراد کی جانب سے آف شور کمپنیاں تسلیم کرنے کے جوابات موصول ہوئے ہیں، 5 افراد نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ان کا بتائی گئی آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، 5 افراد نے التوا مانگا ہے جب کہ 2 افراد کو نوٹسز ہی نہیں بھیجے جا سکے۔

نوٹس کے جواب نہ ملنے کے بعد ایف بی آر حکام نے 69 افراد کو یاد دہانی کے لیے دوبارہ بھی نوٹسز بھیجے ہیں۔


یہ خبر 26 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 26, 2016 06:52pm
السلام علیکم: کیا ٹیکس سے بچنے کے لیے دنیا کے 9 مختلف ممالک یا ریاستوں میں آف شور کمپنیاں بنانے والے جن 444 افراد کو ایف بی آر کی جانب سے نوٹسز بھیجے گئے تھے، ان میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ شامل تھے؟