گرمیاں اور گوریاں

شائع July 1, 2013

garmian and gori 670
کچھ پڑھاکو قسم کے سنجیدہ لوگ ایسے مناظر کیمرے میں قید کررہے ہوتے ہیں تاکہ بعد میں انہیں رہائی دلاکر اپنی تنہائی میں رنگ بھرسکیں۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

کینیڈا کی گوریاں گرمی پڑتے ہی آپے اور کپڑے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ تلاشی کے لیے صرف ایک جامہ پہنتی ہیں، جو سردیوں میں زیرِ جامہ ہوتا ہے۔ وہ چیزیں جو عورتوں میں ڈھونڈنا پڑتی ہیں، گوریاں بن پوچھے بتارہی ہوتی ہیں۔ فیگر کا حساب کتاب گناہگار آنکھوں پر چھوڑدیا جاتا ہے۔ ان کے بوائے فرینڈز چوکیدار نہیں ڈاکو لگتے ہیں۔ سامنے مال اُڑارہے ہوتے ہیں اور انہیں آپ اپنی خاطر روک بھی نہیں سکتے۔ سن باتھ کے دوران سورج کی کرنیں گوریوں کے ”نانگا پربت“ کو چھو رہی ہوتی ہیں اور آنکھیں آپ کی خیرہ ہورہی ہوتی ہیں۔ نہا وہ رہی ہوتی ہیں اور (شرم سے) گیلے آپ ہورہے ہوتے ہیں۔

کچھ پڑھاکو قسم کے سنجیدہ لوگ ایسے مناظر کیمرے میں قید کررہے ہوتے ہیں تاکہ بعد میں انہیں رہائی دلاکر اپنی تنہائی میں رنگ بھرسکیں۔ کچھ بزرگوار اپنے پوتوں یا نواسوں کے ساتھ وہیں گوریوں کے آس پاس اچھل کود کررہے ہوتے ہیں۔ اگر پوتے یا نواسے دس سال سے زائد کے ہوں تو وہ نانا یا دادا کو خود ہی بہانے سے گوریوں کے قریب لے جاتے ہیں اور ہفتے بھر اپنے گرینڈ فادر سے گرینڈ پاکٹ منی وصول کرتے رہتے ہیں۔

کچھ گوریوں کو آپ ”مدر زاد برہنہ“ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی مدر بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ دور سے دیکھیں تو گوری ماں اور بیٹی میں جُھرّیوں برابر فرق نظر آتاہے جو جتنا قریب آؤ، بڑا ہوتا جاتاہے۔

سمندر کنارے ہر گوری کا چال چلن ایک جیسا ہوتا ہے۔ اب یہ آپ کی چال پر ہے کہ گوری آپ کو بلاتی ہے یا پولیس کو۔ یوں تو ہر اچھی فیگر اور چھوٹی نیکر والی گوری کا بوائے فرینڈ سب کو کتّا ہی لگتا ہے مگر اکثر گوریاں چار پاؤں والے کتّے کو بھی ساتھ لاتی ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ ہوتی ہیں جنہوں نے حال ہی میں طلاق لی ہو۔ انہیں اپنے ایکس خاوند سے بچاؤ کیلئے کتّا ہی موزوں لگتا ہے  تاوقتیکہ کوئی اور موزوں خاوند ہاتھ نہ لگ جائے۔ ایسے کتّوں کی  موجودگی میں گوری سرخ لائٹ لگتی ہے، آپ کو لامحالہ ٹھہرنا ہی پڑتا ہے۔ خود یہ کتّے زبان اور دُم مالکن پر اور نگاہیں حسن کے بھکاریوں پر رکھتے ہیں۔ ادھر بھکاری کی نیت یا قدم میں فتور آیا ادھر کتّے نے اپنی مادری زبان میں گالیاں دینی شروع کردی۔ کتّوں کی یہ بدکلامی بھکاریوں کی گرمی دور کردیتی ہے۔

گرمی پڑتے ہی گوریاں اپنے جسم کی مرمت اور نوک پلک سنوارنے پر زیادہ توجہ دینے لگتی ہیں ۔ ایک ایک بال نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے سوائے سر کے بالوں کے۔ ان دنوں وہ گھر سے زیادہ بیوٹی پارلر میں پائی جاتی ہیں۔ اتنی طرح کے لوشن استعمال کرتی ہیں کہ جسم کا ہر حصہ الگ طرح کے لوشن کی خوشبو سے مہک رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں آپ ان کے قریب بیٹھیں تو ایسا لگتا ہے کہ باغ میں بیٹھے ہیں  مگر خیال رہے قانون کے مطابق مالی کے سوا کوئی اور باغ کے پھول توڑ نہیں سکتا۔ پاؤں کی انگلیوں میں نیل پالش لگاکر رنگ برنگی اسفنج کی چپل، جسے فلپ فلا کہتے ہیں، پہن لینا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ چپل پہننے سے انہیں یوں لگتا ہے کہ ہر چیز پہن لی گئی ہے۔ یہاں کے ”شہری قانون“ کے مطابق کم کپڑے پہننا جرم نہیں۔ ان کم کپڑے والوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا جسے ہم تاڑنا کہتے ہیں، یہ جرم ہے۔ اگر لڑکا، لڑکی راضی تو وہ نازیبا حرکات بھی کھلے عام کرسکتے ہیں کیونکہ یہاں کے قانون کے مطابق وہ نازیبا نہیں ہوتیں۔ ان حرکات کو سرسری دیکھ کر آپ صرف جھرجھری لے سکتے ہیں مگر زیادہ دیر دیکھیں گے تو یہ آپ کی بداخلاقی ہوگی اور اس کے سائیڈ ایفیکٹ کے آپ خود ذمےدار ہوں گے۔

کینیڈا کی گوریاں بااصول اور وفادار ہوتی ہیں۔ بوائے فرینڈ ہو تو کسی پاکستانی کو منہ نہیں لگاتیں۔ البتہ صرف وہ گوریاں جن کی دماغی اور جسمانی حالت قابلِ رشک نہ ہو وہ پاکستانیوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ عموماً یہ بانہوں میں نہیں سماتیں اور ان کا وزن کسی پاکستانی بھینس سے ایک آدھ کلو ہی کم ہوتا ہے۔ ان کو ”سَر“ کرنے کے لیے ویک اینڈ کی دو راتیں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ جب یہ اپنے پاکستانی بوائے فرینڈ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چل رہی ہوتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پنجہ آزمائی ہورہی ہے اور بوائے فرینڈ ابھی ہاتھ چھڑا کر بھاگ جائے گا۔

دوسری وہ گوریاں پاکستانیوں کے ہاتھ لگتی ہیں جن کے جسم کے تمام اعضا تو مکمل ہوتے ہیں مگر ان پر گوشت نہیں ہوتا۔ یہ صرف چمڑی اور ہڈّی کا ملاپ ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ ویک اینڈ گزارنا ”گناہِ بے لذت“ کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستانی ایسی محبوباؤں کے بارے میں صرف یہ کہہ کر خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ اس کی آنکھیں بہت اچھی مگر یہ نہیں بتاتے کہ جب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو زندگی کتنی سپاٹ لگتی ہے۔

تیسری قسم وہ ہوتی ہیں جن کی ایکسپائری ڈیٹ دیکھ کر کوئی ان کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔ پانچ کلو کاجل اور پاؤڈر بھی ان کا بال بیکا نہیں کر پاتا۔ تیاری کے بعد جب یہ سڑک پر نکلتی ہیں تو ایسا لگتا ہے ابھی اپنی نواسی کی شادی کی پندرہویں سالگرہ میں شرکت کرکے آرہی ہیں۔ پاکستانی اس کی وصیت کے حصول کے لیے اپنی جوانی اس کے نام کردیتا ہے مگر جب وہ مرتی ہے تو پاکستانی کے نام کچھ نہیں چھوڑتی۔

نائن الیون کے بعد سے گوریوں کی بجائے پولیس اور میڈیا پاکستانیوں کے پیچھے پڑگئی ہے۔ گوریوں نے ایسے ہاتھ کھینچ لیا ہے کہ لگتاہے حلال اور حرام کا فارمولا ان کے لیے بنا ہے۔ پاکستانیوں کو آتا دیکھ کر وہ ”فٹ“ کے ساتھ  ”پاتھ“ بھی بدل لیتی ہیں۔ اکثر گوریوں کو شکوہ ہے کہ پاکستانی بستر پر محبت نہیں کرتے، جنگ لڑتے ہیں۔ فاتح ہوں یا نہ ہوں کسی فوجی کی طرح ہر چیز نوچ کر لے جانا چاہتے ہیں۔

یہاں موسمِ گرما میں ہی پتہ چلتا ہے کون سی گوری حلوہ ہے اور کون سی پوری۔ اگر کینیڈا میں سخت گرمی نہ پڑتی تو گوریوں کے پول نہ کھلتے۔ اگر آپ موسمِ سرما میں کینیڈا آئیں تو حیران ہوجائیں کہ واہ! یہاں تو عورتیں ستر پوشی کا بڑا خیال رکھتی ہیں مگر گرمیوں میں آپ ان ہی مضامین کو سطر بہ سطر پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں جسم موسم کے کہے پر ڈھانکا یا کھولا جاتا ہے۔ کبھی کبھی گوریاں اس معاملے میں بوائے فرینڈز کا کہنا بھی مان لیتی ہیں۔


Mirza Yasin Baig  مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

مرزا یٰسین بیگ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

طاہر قیوم Jul 01, 2013 04:34pm
گڈ مرزا یاسین بیگ صاحب۔۔۔۔ مزاح مزاح میں اچھا نقشہ کھینچا ہے اور بہت سے تلخ حقیقتوں سے بھی پردہ اٹھا دیا ہے
anwer7star Jul 01, 2013 04:41pm
واہ کیا بات ہے ، بہت خوب صورت منظرکشی ہے ، لگتا ہے جسے ان سارے رنگوں سے گزر رہے ہیں http://anwer7star.wordpress.com/

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2025
کارٹون : 18 دسمبر 2025