منجمد سیف الملوک کو دیکھنے کی آرزو بالاخر پوری ہوگئی

منجمد سیف الملوک کو دیکھنے کی آرزو بالاخر پوری ہوئی

عظمت اکبر

خالقِ کائنات نے اس دنیا میں فطرت کے گوناگوں رنگ بکھیرے ہوئے ہیں، کبھی کبھار تو قدرت کی رعنائیوں کا لفظوں میں احاطہ کرنا ناممکن سا لگتا ہے۔ آنکھوں جیسی نعمت کی شکر گزاری کا لُطف رب العزت کے عطا کردہ نظارے دیکھ کر اور بغیر کسی شک و شبے کے اس کی عظمت اور بڑائی تسلیم کرنے میں ہی ہے۔

بلند و بالا برفیلے پہاڑ اور اس کے دامن میں سفید چادر اوڑھے سیف الملوک جھیل کا حُسن دیکھ کر یہ خیال بارہا ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اسے تخلیق کرنے والا رب خود کتنا حسین اور عظیم ہوگا۔ جسم کو منجمند کرنے والے درجہءِ حرارت کے باوجود دھوپ میں چمکتی دمکتی برف بنی ہوئی جھیل سیف الملوک روح کو ایک عجیب راحت بخشتی ہے جسے وہاں جائے بغیر محسوس نہیں کیا جاسکتا۔

کچھ ایسے ہی احساسات لیے پہلی مرتبہ 2007ء مئی کے مہینے میں دوستوں کے ہمراہ جھیل سیف الملوک تک پہنچے لیکن اُس وقت منجمد سیف الملوک کا نظارہ نصیب نہ ہوسکا تھا۔

پھر 2 سال پہلے یکم مئی کو ایک مرتبہ پھر لاہور کے ایک گروپ کے ساتھ جھیل سیف الملوک کی ٹریکنگ کی، مگر ٹریک دستیاب نہ ہونے اور لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے جھیل تک نہیں پہنچ پائے۔

21 اپریل 2018ء کو چمکتی دمکتی برف میں ڈوبی جھیل سیف الملوک کی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر
21 اپریل 2018ء کو چمکتی دمکتی برف میں ڈوبی جھیل سیف الملوک کی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر

2007ء میں کھینچی گئی برفیلی جھیل کی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر
2007ء میں کھینچی گئی برفیلی جھیل کی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر

2 سال پہلے یکم مئی کو جھیل سیف الملوک تک پہنچنے کی ایک ناکام کوشش—تصویر عبیدالرحمن
2 سال پہلے یکم مئی کو جھیل سیف الملوک تک پہنچنے کی ایک ناکام کوشش—تصویر عبیدالرحمن

رواں سال 12 اپریل کو ناران کھلنے کے بعد فوراً ہی سیف الملوک تک پہنچنے کا پروگرام بنالیا گیا اور 20 اپریل کو شدید بارش میں برف پوش سیف الملوک کے دیدار کی غرض سے لاہور اور اسلام آباد کے 25 لوگوں کے گروپ کے ساتھ روانہ ہوئے۔

اسلام آباد سے مانسہرہ تک مسلسل شدید بارش کی وجہ سے دل میں ایک ہی خیال منڈلاتا رہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار پھر جھیل سیف الملوک کا برفیلا نظارہ دیکھنے کو نہ ملے اور پھر ایک سال تک انتظار کرنا پڑے۔ اس دوران شوگران، ناران اور ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری کی خبریں بھی آتی رہیں، جس سے جھیل تک پہنچنے کے امکانات اور بھی کم دکھائی دینے لگ رہے تھے۔

پروگرام کے مطابق ہمیں پہلی رات شوگران میں گزارنی تھی۔ کیوائی کے مقام پر وادئ کاغان کی سب سے خوبصورت آبشار کے ساتھ بنے ہوٹل میں گرما گرم چائے نوش کرنے کے بعد کوسٹر کا رخ اوپر شوگران کی طرف موڑ دیا۔ تھوڑی دیر سفر کرنے کے بعد روڈ کی حالت اور برفباری کی وجہ سے کوسٹر پر مزید سفر کرنے کا پروگرام منسوخ کرکے جیپوں کے ذریعے آگے جانے میں ہی عافیت جانی۔

تقریباً 12 گھنٹے کی مسلسل بارش اور برفباری کی وجہ سے خراب سڑک کی حالت مزید ناگفتہ بہ ہوگئی تھی، اور جیسے ہی ہم شوگران کے قریب پہنچے تو آسمان صاف ہونے لگا اور تازہ برف سے ڈھکی شوگران کو جاتی سڑک اور اردگرد جنگل کے خوبصورت مناظر نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا۔ ہوٹل میں چیک اِن کرنے کے بعد سطح سمندر سے 7749 فٹ بلند تقریباً 6 انچ برف سے ڈھکے شوگران کے خوبصورت ہِل اسٹیشن کا نظارہ کرنے نکل پڑے۔

سطح سمندر سے 7749 فٹ بلند شوگران کا خوبصورت ہل اسٹیشن—تصویر عابد علی
سطح سمندر سے 7749 فٹ بلند شوگران کا خوبصورت ہل اسٹیشن—تصویر عابد علی

اب موسم مکمل طور پر صاف ہوچکا تھا۔ تازہ برف نے شوگران کے اردگرد پہاڑوں کا حُسن دوبالا کردیا تھا، کافی دیر تک فوٹوگرافی اور ڈرون کیمرہ سے ویڈیو گرافی کرنے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے، جہاں کھانے اور بون فائر کے بعد اگلے دن کی منصوبہ بندی کرلی گئی۔ اگلے دن صبح 10 بجے کے قریب ہم شوگران سے ناران کے لیے روانہ ہوئے۔

راستے میں ایک ٹراؤٹ فارم آیا جہاں تھوڑی دیر ٹھہرے، اور وہاں ہمیں ٹراؤٹ مچھلی کی افزائشِ نسل کے بارے میں بتایا گیا۔ ٹراؤٹ پاکستان کے بالائی علاقوں ناران، غزر، اسکردو، نیلم اور کالام کی مشہور مچھلی کی نسل ہے۔ یہاں 15 منٹ کی فوٹو گرافی سیشن کے بعد ہم ایک بار پھر ناران کی خوبصورت وادی کی طرف رواں دواں ہوگئے۔

راستے میں کاغان کے بعد جگہ جگہ سڑک کے دونوں اطراف گلیشئیرز نے سفر کو مزید خوشگوار بنا دیا۔ تقریباً 12 بجے کے قریب ہم ناران بازار میں ایک ہوٹل میں داخل ہوگئے۔

ناران جاتے وقت راستے میں آنے والے گلیشئیر کی 2009ء میں لی گئی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر
ناران جاتے وقت راستے میں آنے والے گلیشئیر کی 2009ء میں لی گئی ایک تصویر—تصویر عظمت اکبر

ناران بازار اس وقت سنسان تھا، ایک تو دن کا وقت تھا اس لیے وہاں سیاح نہ ہونے کے برابر تھے اور دوسرا سیزن کے آغاز میں ناران شہر اور ہوٹلز کی بحالی کا کام بھی زور پکڑ جاتا ہے، جس کے سبب ہر طرف تعمیراتی مٹیریل جگہ جگہ نظر آتا ہے، یوں ہمیں بازار میں رونق نہیں دکھائی دی۔

ہوٹل میں چیک ان اور سامان رکھ کر ہم سیف الموک کی طرف روانہ ہوئے، تقریباً ایک کلومیٹر جیپ کے سفر کے بعد ٹھیک دوپہر 1 بج کر 20 منٹ پر 25 افراد پر مشتمل گروپ نے سیف الملوک جھیل تک پیدل پہنچنے کا مصمم ارادہ کیا۔

ٹریک کی ابتداء میں ایک گلیشئیر کو پار کرکے دوسری طرف جانا ہوتا ہے، یہ کام اتنا مشکل نہیں لہٰذا گروپ کے تمام افراد نے آسانی کے ساتھ گلیشئر پار کرکے ٹریکنگ جاری رکھی۔

گلیشئیر پر ٹریکنگ کا ایک منظر—تصویر عابد علی
گلیشئیر پر ٹریکنگ کا ایک منظر—تصویر عابد علی

تقریباً نصف کلومیٹر چلنے کے بعد ایک اور گلیشئیر کو عبور کرنا ہوتا ہے، اور اب باری تھی عمودی چڑھائی کی، ایک فٹ کے قریب برف میں چلنے کی وجہ سے کافی لوگ ہمت ہار گئے اور واپسی کی راہ لی، لیکن یہ نئی بات نہیں، کیونکہ چڑھائی چڑھتے ہوئے کافی سیاح ہمت ہار جاتے ہیں، لیکن ہم میں سے کچھ میں اب بھی ہمت باقی تھی اور عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے جیپ کے لیے بنے ہوئے ٹریک پر آگئے۔ اب سفر قدرے آسان ہوگیا تھا۔

عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے کافی سیاح ہمت ہار جاتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں—تصویر عامر
عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے کافی سیاح ہمت ہار جاتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں—تصویر عامر

ٹریکنگ کے دوران خوبصورت نظارے—تصویر عظمت اکبر
ٹریکنگ کے دوران خوبصورت نظارے—تصویر عظمت اکبر

سیف الملوک ٹریک پر خواتین سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی—تصویر عظمت اکبر
سیف الملوک ٹریک پر خواتین سیاحوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی—تصویر عظمت اکبر

جیپ کے لیے بنے ہوئے ٹریک پر چلنا قدرے آسان تھا—تصویر عظمت اکبر
جیپ کے لیے بنے ہوئے ٹریک پر چلنا قدرے آسان تھا—تصویر عظمت اکبر

تقریباً ایک گھنٹے کی مزید ٹریکنگ کے بعد ہمیں ملکہ پربت کی حسین و جمیل برفیلی چوٹی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آنے لگی۔ ملکہ پربت کی چوٹی نظر آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ جھیل کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں، تقریباً 15 منٹ مزید چلنے کے بعد جھیل سیف الملوک کا وہ منظر سامنے آیا جسے دیکھنے کے لیے میں کئی برسوں سے بے تاب تھا۔

جھیل سیف الملوک کا وہ منظر سامنے آیا جس کے لیے میں کئی سالوں سے بے تاب تھا—تصویر عظمت اکبر
جھیل سیف الملوک کا وہ منظر سامنے آیا جس کے لیے میں کئی سالوں سے بے تاب تھا—تصویر عظمت اکبر

جھیل سیف الملوک—تصویر عظمت اکبر
جھیل سیف الملوک—تصویر عظمت اکبر

جھیل پر پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچی ہوئی تھی۔ برفیلے پہاڑوں کے دامن میں برف پوش سیف الملوک جھیل کا نظارہ دیدنی تھا، اس احساس کو بتلانا کسی پیچیدہ فلسفے کو سمجھانے کے مترادف ہے۔

تازہ برف کی وجہ سے جھیل کا پانی پوری طرح جم گیا تھا—تصویر عظمت اکبر
تازہ برف کی وجہ سے جھیل کا پانی پوری طرح جم گیا تھا—تصویر عظمت اکبر

14ویں کی رات کا منظر ہو یا اپریل کا مہینہ، جون کی ابتداء ہو یا اگست کا آخر، بدیع الجمال (پری) اور شہزادہ سیف الملوک کی رومانوی داستان سے منسوب اور سطح سمندر سے 10578 فٹ بلند سیف الملوک جھیل ہمیشہ سے ملک بھر اور پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

اپریل اور مئی کے مہینے میں یہ جھیل برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے جبکہ جون سے لے کر اگست تک سرسبز پہاڑوں کے دامن میں نیلگوں پانی کے خوبصورت پیالے کا منظر پیش کرتی ہے۔

جھیل کنارے تقریباً ایک گھنٹے کی فوٹو گرافی کرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا، پانی ختم ہونے کی وجہ سے تازہ برف سے ہی حلق کو تازگی دیتے رہے۔

واپسی کی ایک گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہماری ملاقات عبدالحلیم بابا سے ہوئی جو ’سیف الملوک بابا‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ 70 سالہ عبدالحلیم بابا مانسہرہ کے علاقے خاکی میں مقیم ہیں اور 20 سال سے سیف الملوک جھیل پر پشاوری قہوہ سیاحوں کو پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔

ستمبر کے مہینے میں کشتی رانی کا ایک خوبصورت منظر—تصویر عظمت اکبر
ستمبر کے مہینے میں کشتی رانی کا ایک خوبصورت منظر—تصویر عظمت اکبر

عبدالحلیم بابا 20 سال سے سیف الملوک جھیل پر پشاوری قہوہ سیاحوں کو پیش کرتے چلے آ رہے ہیں—تصویر عظمت اکبر
عبدالحلیم بابا 20 سال سے سیف الملوک جھیل پر پشاوری قہوہ سیاحوں کو پیش کرتے چلے آ رہے ہیں—تصویر عظمت اکبر

برفیلے موسم اور شدید تھکاوٹ کے بعد مجھے پشاور قہوہ امرت جل سا محسوس ہوا۔ 2 کپ قہوہ نوش کرنے کے بعد پورے بدن میں دوبارہ تازگی کا احساس پیدا ہوگیا۔

واپسی کا سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں پورا ہوا اور شام ڈھلنے سے پہلے ہم ناران واپس اپنے ہوٹل پہنچ گئے۔ اگلے دن دریائے کنہار میں ریور رافٹنگ کے زبردست ایڈونچر سے لطف اندوز ہوئے اور رات 10 بجے براستہ مظفرآباد اور مری، اسلام آباد پہنچ گئے۔

دریائے کنہار میں ریور رافٹنگ کا ایک منظر—تصویر وقاص چوہدری
دریائے کنہار میں ریور رافٹنگ کا ایک منظر—تصویر وقاص چوہدری

اپریل اور مئی کے مہینے میں جو سیاح سیف الملوک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ مندرجہ ذیل باتوں کا خاص خیال رکھیں۔

• ناران سے جھیل سیف الملوک کا ٹریک تقریباً 3 گھنٹوں پر مشتمل ہے لہٰذا اپنے ساتھ ٹریکنگ کے لیے ضروری سامان (جوتے، پانی، ٹریکنگ اسٹک اور برساتی یا رین کوٹ) ضرور رکھیں۔

• جھیل پر جانے سے پہلے سن بلاک (کریم) کا استعمال ضرور کریں تاکہ جھیل پر سورج کی تپش سے آپ کی جلد محفوظ رہے۔

• اسنو بلائنڈنیس سے بچنے کے لیے سن گلاسز یا کالے چشمے کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

• ٹریکنگ کا سامان (جوتے، عینک، اسٹک اور پانی) ٹریک کے آغاز پر مقامی لوگوں سے رینٹ پر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

• ٹریکنگ کے لیے گائیڈ کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ آپ کی بہتر رہنمائی کرسکے۔

• سیف الملوک تک ٹریکنگ قدرے مشکل ہے لہٰذا بچوں کے ساتھ جانے سے گریز کریں۔

• وادئ کاغان و ناران آنے کے لیے اپنے ساتھ گرم کپڑے اور موسم کے لحاظ سے ضروری سامان ساتھ رکھیں تاکہ بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو۔


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔


ویڈیوز: Trip Trails Pakistan