فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

گزشتہ ہفتے میں نے اپنے ایک مضمون میں ان لاتعداد عمر رسیدہ شہریوں کا ذکر کیا تھا جنہیں ملک کی پریشان کن صورت حال کے نتیجے میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے بچے ان علاقوں میں جاکر آباد ہو گئے ہیں جہاں خوشحالی کے زیادہ مواقع موجود ہیں-

اس کے جواب میں بہت سے لوگوں نے مجھے لکھا کہ یہ ایک المیہ ہے- بہت سے لوگوں نے اس تلخ حقیقت کی جانب بھی توجہ دلائی کہ مغرب جس کی لادینیت کی وجہ سے پاکستان کےعوام اس پر تنقید کرتے ہیں، اس مسئلہ کا قابل عمل حل ڈھونڈھ لیا ہے جب کہ ہم خود، جنہیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم ایک ایسے سماج کا حصّہ ہیں جس میں بزرگوں کی عزت کی جاتی ہے، ہم اپنے بزرگوں کو ان کے حال پر چھوڑ رہے ہیں کہ وہ اپنے معاملات سے خود نمٹ لیں-

پاکستان کے شہروں میں ایک محدود سماجی حلقے کے طرز رہائش میں تبدیلی آرہی ہے جس کی مثالیں ہمیں چند نسلوں پہلے کے مغرب میں نظر آتی تھیں- اب خاندان یہاں ماں، باپ اور بچوں (نیوکلئیر فیملی) تک محدود ہوتا جا رہا ہے اور انفرادیت پسندی آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی ہے-

اور بھی سماجی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مثلا ملک کے اندر رہائش کی تبدیلی یا بیرون ملک ہجرت، جس کے نتیجے میں خاندان ٹوٹ رہے ہیں- اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست حرکت میں آئے اور عمررسیدہ لوگوں کے لئے محفوظ جگہیں فراہم کرے-

بہت سے مغربی ممالک کو برسہا برس سے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کا تعلق عمر سے ہے- شرح پیدایش میں کمی کی وجہ سے ان کی آبادی بوڑھی ہوتی جا رہی ہے- مختلف وجوہات کی بنا پر شمالی امریکہ اور یورپ کے لوگوں نے بچے پیدا نہ کرنے یا کم بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-

اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں جنہیں تجزیہ نگار اپنے اپنے تجربے کی عینک سے دیکھتے ہیں-

مثلا یہ کہا جاتا ہے کہ ویلفئر اسٹیٹ کے فروغ کے نتیجے میں جو بہت سے اسکینڈینیویائی ملکوں میں قائم ہے، اب لوگوں کو اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ بڑھاپے میں بچوں کا سہارا ڈھونڈیں کیونکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، اس لئے خاندان شروع کرنے کا جو محرک بنتا تھا اب باقی نہیں رہا-

اسی طرح یہ بھی دلیل دی جاسکتی ہے کہ اپنے پیشہ میں آگے بڑھنے کی خواہش یا معاشی حقایق کی بنا پر بہت سے لوگ والدین کی ذمہ داری اٹھانے سے بچنا چاہتے ہیں- خاندان کی کفالت ایک مہنگا نسخہ ہے اور کام کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی ذمہ داری اٹھانا اتنا قابل رشک بھی نہیں (اگرچہ یہ رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ خاص طور پر امریکہ کے خوشحال گھرانوں میں جہاں ملازمت کرنے والی خواتین ماں بننے کیلئے اپنی ملازمت چھوڑ دیتی ہیں)-

وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، نتیجہ ایک ہے- ریاستیں اس بات پر پریشان ہیں کہ ریٹائر ہونے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ان نوجوانوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے جوافرادی قوت کا حصّہ ہیں- جس کے نتیجے میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جن سے ریٹائر ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں-

بہتر ادویات اور بہترطبی نگہداشت کے نتیجے میں عمر رسیدہ لوگ، پینسٹھ سال سے کہیں زیادہ عمر تک زندہ رہتے ہیں-

کئی لحاظ سے اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں- کئی ممالک میں خاندان شروع کرنے کی ترغیبات دی جا رہی ہیں جس میں بچوں کی نگہداشت میں مالی امداد، زچگی کی مراعات اور شوہر اور بیوی دونوں کو زچگی کی چھٹی کی سہولت دینا شامل ہے-

والدین کی بعض تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجے میں بعض ادارے کام کے دن میں لچکداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور گھروں میں دفتر قائم کئے جا رہے ہیں جو دونوں ہی کیلئے فائدہ مند ہے- یہ سارے اقدامات قابل تحسین ہیں اگرچہ کہ تاریک پہلو کو پیش نظر رکھنے والے لوگ یہ تنقید کر سکتے ہیں کہ ان سب کی بنیاد معاشی مفادات ہیں-

تاہم، اسکی وجہ سے گھٹتی ہوئی شرح پیدائش کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور اگر جنسی مساوات اور مساوی مواقع کے نقطہءنظر سے دیکھا جائے تو ان اقدامات کو خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے-

مختلف ممالک میں عمر رسیدہ افراد کومخصوص نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے- مثلا جنوبی کوریا کو لیجئے جو نوجوانوں کی قوت سے بھرپور ایک پرجوش معاشرہ ہے جو سرمایہ داری اور انفرادیت پسندی کی جانب گامزن ہے-

لیکن حکومت اپنے مصارف کا نسبتاً کم حصہ، سماجی بہبود کے کاموں پرصرف کرتی ہے- یہاں قومی صحت کی انشورنس کی اسکیم سنہ 1977 میں شروع کی گئی اور بطور سماجی بہبود اس کی ابتدا سنہ نوے کی دہائی سے شروع ہوئی-

اس کا مطلب یہ ہوا کہ گو کہ آج وہاں کے لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے دور کو طمانیت سے دیکھ سکتے ہیں، آبادی کے سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد کو جو فلاحی نظام کی ابتدا سے پہلے ریٹائرہو چکے تھے یا پھر جو ایسے شعبوں یا کمپنیوں مین کام کرتے تھے جہاں پراویڈنٹ فنڈ جیسی مراعات کی ابتدا نہیں ہوئی تھی، طمانیت اور اطمینان حاصل نہیں-

افسوس کہ وہ نسل جو اب اسّی سال سے زیادہ کی ہو چکی ہے یہ وہی نسل ہے جس نے جنگ کے بعد اپنی کوششوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا تھا اور جس نے فلاحی نظام کا خواب دیکھا تھا- لیکن اب یہ لوگ اپنے بڑھاپے میں اپنے بچوں کی مدد لینے پر مجبور ہیں-

اب یہ نسل آبادی کا غریب ترین حصہ بن چکی ہے کیونکہ بدلتے ہوئے سماجی نظام کے تحت بچے اب اپنے بوڑھے ماں باپ کی ویسی نگہداشت نہیں کرتے جیسی کہ روایتاً کی جاتی تھی- گرچہ بر صغیر کی طرح مشرق میں بھی بزرگوں کو انتہائی احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے-

اس سے زیادہ بدتر بات کیا ہوسکتی ہے کہ جنوبی کوریا میں بہت سے بوڑھے اس لئے خودکشی نہیں کرتے کہ ان کے خاندانوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑیگا، وہ فاقے کرتے ہیں تاکہ مر جائیں؟

اسی دوران، بلکہ اسی مہینے میں چین میں بوڑھوں کے حقوق کا قانون منظور کیا گیا- جس پر ویب سائٹ پر بہت سے لوگوں نے تنقید بھی کی- اس قانون کے تحت بالغ افراد کو حکم دیا گیا تھا کہ یا تو وہ اپنے عمررسیدہ والدین سے ملنے جایا کریں یا پھر جرمانہ دینے یا جیل جانے کیلئے تیار ہوجائیں- گرچہ اس قانون پر عمل درآمد کروانا یقینا مشکل ہوگا (کیونکہ اس قانون کے تحت یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کتنی بار یا کب ملنے جائیں) لیکن اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں تنہائی کتنا بڑا مسئلہ ہے-

پاکستان کو اگرچہ کہ تنہائی یا ماں باپ کی جانب بچوں کے متوقع فرائض سے کہیں زیادہ مشکل مسائل کا سامنا ہے یا غالباً نہیں- کسی ریاست کی خوشحالی کا انحصار یک نکاتی بنیاد پر اس بات پر ہے کہ شہریوں کو نظام میں دلچسپی ہو-

ہمارے ملک میں نوجوانوں کو بہت کم معاشی مواقع حاصل ہیں اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے بہت سے نوجوان مایوس ہو کر غیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں- بوڑھوں کیلئے یہ بات نہ تو اطمینان کا باعث ہے اور نہ ہی ان کی نگہداشت کے لحاظ سے سکون کا، تو پھر اس نظام سے کس کو دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اس کا واضح جواب یہی ہوسکتا ہے: صرف انہی لوگوں کو، جن کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں ہے-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں