ملک بھر میں صحافی کیساتھ ہونے والی زیادتی کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہوں، عطا تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ملک میں جہاں بھی صحافی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، اس کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہوں اور صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی والے معاملے کی داد رسی ہونی چاہیے۔
ڈان نیوز کے مطابق علی ظفر کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس ہوا، جس میں موشن پکچرز ترمیمی ایکٹ 2025 پر بحث ہوئی جس میں کہا گیا کہ نئے ادارے کا نام فیڈرل بورڈ برائے فلم سرٹیفیکیشن رکھا جائے گا۔
وزارت اطلاعات کے حکام نے بتایا کہ ایکٹ میں مختلف جگہوں پر فیڈرل گورنمنٹ کے بجائے متعلقہ ڈویژن استعمال ہوگا جس پر چیئرمین کمیٹی علی ظفر نے پوچھا کہ اس مخصوص ترمیم کا مقصد کیا ہے؟
حکام نے بتایا کہ فیڈرل گورنمنٹ کا مطلب کابینہ ہے اس لیے ہر چیز کابینہ کے پاس جاتی ہے، ہر کام کیلئے کابینہ سے رجوع کرنا ایک مسئلہ رہا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لیکن بعض اوقات کابینہ کا کام ایگزیکٹیو اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہے۔
وزارت اطلاعات کے حکام کا کہنا تھا کہ فلم کے سنسر بورڈ پر وزارت اطلاعات، دفاع اور داخلہ کے حکام ہوں گے۔
جس پر کمیٹی کے رکن پرویز رشید نے کہا کہ پوری دنیا میں جہاں اچھی فلمیں بنتی ہیں وہاں کہیں بھی 6 سے 8 لوگ یہ فیصلہ نہیں کرتے ہیں کہ یہ فلم ٹھیک ہے کہ نہیں، لوگ جو فلم دیکھنا چاہتے ہیں انہیں دیکھنے دیں۔
چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ اگر فلم پر پابندی لگے تو معاملہ کہاں جاتا ہے جس پر وزارت اطلاعات کے حکام نے بتایا کہ معاملہ مکمل 14 رکنی سینسر بورڈ کے پاس جاتا ہے، اس کے بعد معاملہ وزارت اطلاعات کے پاس جائے گا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے خصوصی شرکت کی، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فلم کی سرٹیفیکیشن سے متعلق تمام ضروری عوامل شامل ہوتے ہیں، اگر ہر مرتبہ کابینہ نیا سینسر بورڈ تشکیل دے اور اس پر طویل بحث ہو تو ہماری فلم انڈسٹری کے معاملات تاخیر کا شکار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بل میں فلم سرٹیفیکیشن بورڈ کی منظوری کا اختیار متعلقہ وزیر کو ہوگا تاکہ فیصلہ سزای میں تاخیر نہ ہو، 18 ویں ترمیم کے بعد فلموں کی درآمد اور سرٹیفیکیشن کے حوالے سے کچھ مسائل پیدا ہوئے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ فلم کی سرٹیفیکیشن کے لیے پورے ملک کو ایک پیج پر ہونا چاہئے، وفاقی حکومت کا کردار صرف فلم درآمد تک محدود ہے جبکہ صوبے اپنی الگ قانونی سازی کے تحت سرٹیفیکیشن کرتے ہیں، اس حوالے سے صوبوں کے ساتھ کوآرڈینیشن ضروری ہے۔
بعد ازاں، کمیٹی نے سینسر بورڈ کے ایجنڈے کی منظوری دے دی۔
اجلاس کے دوران وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ پیکا کے تحت صحافیوں کے خلاف ملک بھر میں 9 کیسز درج ہیں اور عام عوام کیخلاف 689 ہیں جس پر عرفان صدیقی نے پوچھا کہ صحافیوں کیخلاف کیسوں کی کیا تفصیلات ہیں اور ان صحافیوں کے خلاف کیسوں کی نوعیت کیا ہے۔
حکام نے بتایا کہ جن 9 صحافیوں کے خلاف مقدمات درج ہیں ان میں 7 پاکستان میں نہیں ہیں، راولپنڈی میں عادل راجا اور عمران ریاض پر ریاست کے خلاف موقف اپنانے پر درج کئے گئے، گوجرانوالہ میں شہزاد رفیق کے خلاف شہری کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا، سوشل میڈیا پر عزت اچھالنے پر شہری نے درخواست دی تھی۔
وزارت داخلہ کے حکام نے مزید بتایا کہ اسلام آباد سے احمد نورانی، صابر شاکر، معید پیرزادہ محمد وحید کے خلاف ریاست مخالف بیانیہ چلانے پر مقدمات درج کیے، جبکہ کراچی میں بھی فرحان ملک کے خلاف کارروائی کی گئی، جو ابھی ضمانت پر ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے مکمل معلومات نہ ہونے اور غلط بیانی پر وزارت داخلہ حکام کی سرزنش کی، ان کا کہنا تھا کہ ہم صحافیوں کیخلاف کارروائیوں کے حق میں نہیں ہیں، اگلی کمیٹی میں تمام تفصیلات پیش کی جائیں۔
قائمہ کمیٹی نے چاروں صوبوں کے آئی جیز سے تفصیلات مانگ طلب کرلی۔
اجلاس کے دوران راولپنڈی میں صحافی طارق ورک کو پنجاب پولیس کی طرف سے تشدد بنانے کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
قائمہ کمیٹی نے متعلقہ افسران کی عدم حاضری پر وزارت داخلہ حکام کی سرزنش کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی کی اس معاملہ پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے دیں، صحافی سے زیادتی ہوئی ہے، اس پر غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ملک میں جہاں بھی صحافی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے،اس کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہوں، صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی والے معاملہ کی دادرسی ہونی چاہیے۔
بعد ازاں، قائمہ کمیٹی نے سی پی او راولپنڈی اور متعلقہ ایس ایچ او کو طلب کرلیا اور متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک انکوائری نہیں ہوتی ایس ایچ او کو معطل کیا جائے۔











لائیو ٹی وی