کراچی: کھولتے تیل کی کڑھائی
کراچی نے ماضی میں بدترین تشدد کا سامنا کیا ہے مگر حال میں جو انتظامیہ پر لرزہ طاری ہے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ پاکستانی معاشی شہ رگ اور معیشت کے میدان کی جو صورتِ حال ہے اسے قبائلی علاقوں کی لاقانونیت سے ہی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
مسلح گروہوں نے اسلحہ کے زور پر شہر کے اٹھارہ ملین باشندوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا فرقہ وارانہ گروہ یا پھر جرائم پیشہ مافیا۔۔۔ شہر پر قبضے کے لیے سب دست و گریبان ہیں۔
تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سن دو ہزار آٹھ سے لے کر اب تک شہر میں سات ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں، تاہم ہلاکتوں کی یہ تعداد بدامنی کی اس اصل قوت کا اظہار نہیں کرتی جس نے میٹروپولٹن کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔
منہدم ہونے کے قریب موجود امن و امان اور حکومت نے حقیقی معنوں میں شہر کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور رہے اس کے شہری تو وہ خوف میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی حمایت رکھنے والے مسلح جتّھے، فرقہ وار گروہ، نیز بڑی تعداد میں جرائم پیشہ شہر کی زمین اور اس کے دیگر وسائل پر قبضے کے لیے ایک دوسرے پر بالا دست ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
نہایت کمزور امن و امان کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے مافیا نے اس طرف کا رخ کرلیا ہے۔ بھتہ اور تاوان کے لیے اغوا سب سے زیادہ پُرکشش دھندا بن چکا ہے۔
تاجروں اور صنعت کاروں پر دباؤ ہے کہ اگر وہ زندہ رہنا اور کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو بھتہ دیں۔ کارخانے بند ہورہے ہیں اور سرمایہ کار دوسرے علاقوں کا رخ کررہے ہیں۔
جدید ترین آتشیں اسلحے سے بھرا ہوا یہ شہر بارود کے اُس ڈھیر پر بیٹھا ہے کہ ایک معمولی سی چنگاری بہت بہت بڑا دھماکا کرکے ملکی معیشت اورسیاست کو عدم استحکام سے دوچار کرسکتی ہے۔
اس وقت جو سب سے زیادہ خطرناک بات محسوس کی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ شہر طالبان اور دیگر مذہبی شدت پسند گروہوں کا نیا میدانِ جنگ بننے جارہا ہے۔
امن و امان کی ناقص صورتِ حال اور اقتدار میں شریک حکمراں جماعتوں کے درمیان خونی جھگڑوں نے سوات اور جنوبی وزیرستان میں کم شدت کے فوجی آپریشن سے فرار ہونے والوں کے لیے پناہ کا سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔
اس وقت شہر میں ہزاروں مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں، جس کے باعث یہ شہر شاید ملک میں عسکریت پسندوں کی سب سے بڑی اورمحفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔
شمال مغرب سے نقل مکانی کرکے اس جنوبی شہر میں آکر آباد ہونے والوں میں مماثلت کی بنا پر یہ عسکریت پسند باآسانی ان میں سما جاتے ہیں۔
شہر بھر میں پھیلے ہوئے جارحیت پسند مدارس نہ صرف انہیں رہائش اور سفر کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں بلکہ دہشت گرد کارروائیوں کے لیے بھی انہیں یہیں سے بنا تعطل افرادی قوت کی فراہمی بھی ہوتی ہے۔ عسکریت پسند شہر میں جرائم، نسل پرستی اور سیاسی کشیدگی کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔
حالیہ بردسوں کے دوران فوجی اور سیکورٹی تنصیبات پر بڑے بڑے دہشت گرد حملے کیے جاچکے ہیں جیسا کہ مہران ائیر بیس پر دہشت گرد کارروائی، سی آئی ڈی کے تفتیشی سینٹر پر کار بم حملہ وغیرہ۔ یہ واقعات شہر میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی قوت کا اظہار ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے حال ہی میں سیاسی رہنماؤں پر حملے اور شہر میں شریعت کے نفاذ کی دھمکیاں دی ہیں۔ یہ ان کی بڑھتی ہوئی شدت اور دیدہ دلیری کا اشارہ ہیں۔
اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بعض سیکورٹی حکام کراچی کی صورتِ حال کو شمالی وزیرستان سے تشبیہہ دینے لگے ہیں۔ شمالی وزیرستان، ایک قبائلی ایجنسی ہے، جسے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔
اس وقت کراچی کی جو صورتِ حال ہے، وہ سن اُنیّسو اسّی اور نوّے کی دہائی میں شہر کی امن و امان کی صورتِ حال اور کشیدگی سے بہت مختلف ہے، حالانکہ اس وقت بھی نسلی اور سیاسی کشیدگی کے باعث ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔
کراچی میں اس وقت جو بدامنی، دہشت اور لاقانونیت ہے، اس تناظر میں، شہر نے اس سے پہلے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اتنا بے بس اور مجبور نہیں دیکھا تھا۔
وسیع اور ہمہ گیر تشدد کو دیکھتے ہوئے خوف ہے کہ شاید یہ ایک اور بیروت بننے سے بہت زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔
یہ بات بھی یقینی ہے کہ کراچی کے مسائل کی گہری جڑیں آبادی کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال کے اندر ہیں۔ بعض تخمینوں کے مطابق ہر سال شہر میں دوسرے حصوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے لاکھوں باشندے آباد ہوتے جارہے ہیں، جس کی باعث یہ دنیا کا تیز رفتاری سے آبادی میں اضافے والا شہر بن چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں شمال مغرب سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر آمد کے باعث مقامی سیاست میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جس نے انہیں شہر کی ایک مضبوط سیاسی قوت میں تبدیل کردیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی مومومنٹ کے درمیان کشیدگی، آبادی کے توازن میں اسی تبدیلی اور نئی قوت کے اظہار کا منشور ہی ہے جو درحقیقت سیاست کی نئی حرکیات یا ڈائنامکس ترتیب دے رہی ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر قبضے کی جنگ ہے۔
اقتدار کی کشمکش نے تششدد سے جرائم کی سرپرستی کا موڑ لے لیا ہے۔ زمینوں پر قبضے، اسلحہ اسمگلنگ اور تاوان میں ملوث جرائم پیشہ گروہوں کی سیاسی پشت پناہی کی جارہی ہے۔
شہر کی صورتِ حال پر کی جانے والی متعدد تحقیقات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اس وقت دو سو سے زائد نہایت جدید اسلحہ سے لیس اور سیاسی پشت پناہی رکھنے والے گروہ شہر میں کارروائیاں کررہے ہیں، جس کے باعث کراچی دنیا کے چند بدترین تششدد والے شہروں میں شامل ہونے کی شہرتِ بَد حاصل کرچکا ہے۔
جو چیز صورتِ حال کو نہایت سنگین بناتی ہے وہ ہے ملزموں کے خلاف کریک ڈاؤن میں حکومت کی ناکامی، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر کا تعلق حکمراں جماعت کے سیاسی شراکت داروں سے ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی جو صوبہ سندھ میں اتحادی حکومت کی سربراہ ہے، اس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خود شہر میں اپنی سیاسی جگہ بنانے اور اسے وسعت دینے کے لیے جرائم پیشہ گروہوں کی سرپرستی کررہی ہے، جس کے باعث شہر میں تششد اور بدامنی کی صورتِ حال میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک بے مثال صورتِ حال ہے کہ جہاں خود حکمراں جماعت شہر کو خون میں نہلانے والوں میں بطور قصور وار کھڑی ہے۔
زمین اور وسائل پر قبضے کی اس جنگ نے گزشتہ چار سالوں کے دوران ہزاروں شہریوں کو موت کی نیند سلادیا ہے۔ حکومتی اتحادیوں کے درمیان لڑی جانے والی اس چھاپہ مار طرز کی لڑائی نے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مفلوج بنادیا ہے۔
اگر بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ یا اغوا برائے تاوان کا کوئی ملزم پکڑا جاتا ہے تو اسے اتحادی حکومت میں شامل سیاسی سرپرستوں کے دباؤ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کراچی میں چالیس فیصد پولیس اہلکار میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتی ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے متعدد مجرمانہ پس منظر اور پولیس ریکارڈ رکھتے ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے پولیس آرڈر مجریہ دو ہزار دو کی منسوخی کے بعد پولیس کے سینئر افسران کے تبادلے اور تقرریوں کا اختیارات صوبائی حکومت کو حاصل ہو چکا ہے، جس کے بعد پولیس اور بھی زیادہ سیاسی ہوچکی ہے۔
اب یہ حکمران جماعتوں کے لیے اور آسان ہوچکا ہے کہ وہ اپنے حلقوں اور پسندیدہ جگہوں پر من پسند پولیس افسران کو تعینات کرکے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو مزید تحفظ فراہم کرسکیں۔
ایسے میں نتائج کا خوف پیشہ ور پولیس افسران کو بھی آگے بڑھ کر سیاسی رابطے رکھنے والے جرائم پیشہ گروہوں پر ہاتھ ڈالنے سے روکتا ہے۔
ویسے امن و امان بہتر نہ بنانے پر پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل نیک نام پولیس افسران کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان کے سامنے اُن پولیس افسران کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے سن اُنیّسو پچانوے کے آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ بعد میں تقریباً سب کے سب نہایت بہیمانہ طور پر قتل کیے گئے تھے۔
کراچی کے کھولتے تیل سے بھرے کڑھاؤ کے مسئلے کا حل کوئی آسان نہیں لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت کی شہ رخ کو بہتے خون میں بے سہارا چھوڑا نہیں جاسکتا۔
جاری تشدد اور بدامنی پر قابو پانے، نیز سیکورٹی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سیاسی اور آئینی اقدامات کی ضرورت ہے۔ امن صرف اسی صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی اثر اور سیاسی وابستگیوں سے پاک کردیا جائے۔
یہ ذمہ داری حکومت اور اس میں شامل اقتدار کی شراکت دار سیاسی جماعتوں پرعائد ہوتی ہے کہ وہ شہر کو بچانے کے لیے کسی معاہدے پر پہنچیں۔
بدامن کراچی پورے ملک کا سیاسی استحکام تلپٹ کرسکتا ہے۔
مضمون نگار مصنف اور صحافی ہیں۔
Twitter: @hidhussain
ترجمہ: مختار آزاد












لائیو ٹی وی