تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
پرسوں، 19 فروری، صبح آٹھ بجے لاہور میں ایف سی کالج کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے پروفیسر ڈاکٹر علی حیدر اور انکے آٹھ سالہ بیٹے مرتضی حیدر کو ہلاک کر دیا۔
شعبہء طب کو مسیحائی کا شعبہ بھی کہا جاتا ہے۔ مسیحا کا لفظ مسیح سے نکلا ہے اور مسیح کو بھی بلآخر سولی پر ہی چڑھایا گیا تھا۔
ڈاکٹر علی حیدر ساری عمر مریضوں کی بینائی درست کرتے رہے، لیکن اندھوں کے اس دیس میں اب انکی ضرورت باقی نہ تھی۔ ان کا واحد قصور ان کا عقیدہ تھا اور مملکت خداداد میں اب عقیدے کی ’درستگی‘ بہت زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں کوئٹہ میں مقیم ہزارہ آبادی دو سو سے زائد لاشیں اٹھا چکی ہے۔ ان کا قصور بھی عقیدے کا ہی تھا۔ خالد احمد کی کتاب ’فرقہ واریت کی جنگ‘ میں پچھلے 52 سالوں میں قتل کیے جانے والوں پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔
ڈاکٹر علی حیدر پر حملہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا اور سن 2001 کے بعد سے 50 سے زائد ڈاکٹروں کو سعودی عرب اور ایران کے مابین اس گھٹیا جنگ کی بھینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔ آٹھ سالہ مرتضی اور دو سالہ ہزارہ بچے کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مختلف عقیدے کے گھرانوں میں پیدا ہوئے۔
لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں چند لوگ ہر بار موم بتیاں جلا کر لواحقین سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں تو ان کو اب اگر بتیاں جلانی چاہییں کیونکہ اب یہ ملک، ملک نہیں رہا، قبرستان ہو چکا ہے۔
ابھی کچھ ہی روز قبل تو ڈاکٹروں نے اپنے حقوق کے لیے ہڑتال کر رکھی تھی۔ ڈاکٹر علی حیدر اور کوئٹہ میں مارے جانے والوں کے لیے ہڑتال کون کرے گا؟ ان کو انصاف کی فراہمی کون کرے گا؟ لاہور کے گورنر ہاؤس اور علمدار روڈ کے لواحقین کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ برما اور فلسطین کے مسلمانوں کے دکھ میں کڑھنے والے کہاں ہیں؟ عافیہ کی عصمت کے رکھوالے 25 ہزارہ خواتین کی شہادت پر خاموش کیوں ہیں؟
اور یہ جو سادہ لوح اپنے پیاروں کے کفن سڑک پر رکھ کر بیٹھے ہیں، کیا تاریخ کا سبق بھول گئے؟
حسینی قافلے سے وابستگی کا اظہار کرنے والے، کوفہ والوں کا کردار بھول گئے؟
انصاف کی توقع کس سے لگا رہے ہو عقل مندو! ان منصفوں سے جو ملک اسحاق کا نان نفقہ مقرر کرتے ہیں؟ اس سیاسی جماعت سے جو اپنے گورنر کے قاتلوں کے ساتھ شیروشکر ہو رہی ہے؟ اس سیاسی جماعت سے جس کا وزیر اپنی حفاظت کے لیے سپاہ کے بندے استعمال کرتا ہے؟ اس فوج سے جو کئی برس ان قاتلوں کی پشت پناہی کرتی رہی ہے؟ اس ایف سی سے جو چڑیا کو تو پر نہیں مارنے دیتی، اسلحے بھری گاڑیوں سے بے خبر رہتی ہے؟ اس میڈیا سے جو اپنے تئیں آزادی کا دعوی کرتا ہے لیکن احسان اللہ احسان کی ایک ’بڑھک‘ پر ساری کوریج اس کے حوالے کر دیتا ہے؟
اس عوام سے جو ویلنٹائن منانے پر سیخ پا تھی اور سینکڑوں ہلاکتوں پر خاموش ہے؟ عالمی اداروں سے؟ ان طالبان سے جو نو سو چوہے کھا کر اب مذاکرات کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں؟ امریکہ سے؟ جو ڈرون حملوں کے شکار ہر جوان مرد کو دہشت گرد قرار دیتا ہے؟
افریقہ کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر ایک بھیانک کھیل جاری ہے۔ اس کھیل کا ایک فریق ایران تو دوسرا سعودی عرب ہے۔ ایک جانب شکست کا بدلہ دوسری جانب وار کر کے لیا جاتا ہے اور طاقت کے گھمنڈ سے بھرپور ان قوتوں کی برق گرتی ہے تو بیچارے عام مسلمانوں پر۔
کوئٹہ کے ہزارہ لوگوں کا شمار انتہائی امن پسند اور پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔ گزشتہ 10 سال میں دو ہزار سے زائد ہزارہ مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے آج تک کوئی جوابی کاروائی نہیں کی اور وہ آج تک جرم ضعیفی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست سے تو انصاف کی توقع لگانا ہی بے وقوفی ہے۔
ریاست کا کام شہریوں کی جان اور مال کا تحفظ ہوتا ہے، ہماری ریاست تو ہمیں بجلی تک نہیں فراہم کر سکی، امن و امان تو بڑے دور کی بات ہے۔ ان واقعات میں براہوی النسل ’سپاہ‘ کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں لیکن گورنر راج نافذ کر کے مرکزی حکومت حالات سے اپنی لاعلمی اور نااہلی کا ثبوت پیش کر چکی ہے۔
ان واقعات کے ذمہ داران کا تعین کرنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں۔ کچھ سال قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اہل تشیع کو مسلمان ماننے کو تیار ہی نہیں۔ ان حالات میں ہم کس کے ہاتھ پر معصوموں کا خون تلاش کریں؟
عبدالمجید کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور انہیں تاریخ، سیاست اور معاشیات کے مضامین میں دلچسپی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (9) بند ہیں