ذکر ایک موصوفہ کا
[protected-iframe id="cb6a85d75d44161b7f176b57496c9a78-32306620-6130220" info="http://www.dailymotion.com/embed/video/xyo4ol?logo=0&hideInfos=1" width="480" height="369" frameborder="0"]
موصوفہ کو میں نے ادب کے ہر مجمع میں دیکھا۔ مجمع پندرہ کا ہو یا اڑتالیس کا موصوفہ اس بھیڑ میں الگ پہچانی جاتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر ادبی بینر پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔
موصوفہ کو ادب سے جتنا لگاؤ ہے، اگر شوہر سے اتنا لگاؤ ہوتا تو وہ موصوفہ کو چھوڑکر فرار نہ ہوتا۔
موصوفہ کو ادب کا شوق فیض کی پیدائش کے وقت سے ہوا۔ موصوفہ اس وقت بھی ایسی ہی دکھائی دیتی تھیں جیسے آج۔ وہی کالے بال، وہی جگنو کے اُڑجانے کے بعد والی آنکھیں اور نیم ادبی لباس جن سے ان کے بازو ایسے جھانکتے ہیں جیسے قیدیوں کی گاڑی سے لمبی قید پانے والے عمررسیدہ چہرے۔
موصوفہ کو بچپن ہی سے لکھنے کی عادت ہے، یہی بچپنا آج تک ان کی تحریروں میں جھلکتا ہے۔
شاعر انھیں اچھا نثرنگار اور ادیب انہیں اچھی شاعرہ مانتے ہیں۔
وہ چھوٹی بڑی (سائز کے اعتبار سے) پندرہ کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ادبی تقریبات میں اپنی کتابیں مفت تقسیم کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
موصوفہ ہر مشہور قلمکار کے ساتھ اس بےتکلفی کے ساتھ تصویر کھنچواتی ہیں جیسے میاں بیوی کھنچواتے ہیں۔
موصوفہ کو اپنے علاوہ ہر وہ عورت بُری لگتی ہے جو ادبی تقریبات میں شرکت کرتی ہے۔ اپنا کلام اس ترنم سے سناتی ہیں کہ بدمزگی دو آتشہ ہوجاتی ہے۔
ہر ادبی تقریب میں وقت سے پہلے پہنچ جاتی ہیں اور آخری وقت تک اپنی شکل سے حاضرین کو محضوظ کرواتی ہیں۔
پہلی صف میں بیٹھنے کا اتنا شوق ہے کہ اگر کوئی نشست خالی نہ ہو تو منتظمین کو خطرہ ہوجاتا ہے کہ وہ کسی کی گود میں بیٹھنے میں بھی عار محسوس نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر منتظمین موصوفہ کے لیے پہلی صف میں ایک نشست ضرور خالی رکھتے ہیں تاکہ موصوفہ ادبی محفل میں غیر ادبی مزے نہ لوٹ سکیں۔
موصوفہ کو رنگ برنگی لپ اسٹک لگانے کا بہت شوق ہے۔ ان کے موٹے موٹے ہونٹوں پر لپ اسٹک کے گہرے رنگ دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ بدشکلی کا آخری پیمانہ کیا ہوسکتا ہے۔
موصوفہ نے کبھی اپنے وزن کا خیال رکھا نہ اپنے اشعار کے وزن کا۔ اشعار یوں لکھتی ہیں جیسے لوگ سودا سلف کی فہرست لکھتے ہیں۔ ان کے اشعار پڑھو تو بغل میں گدگدی ہوتی ہے۔
موصوفہ نے اپنی بلّی پر ایک نظم لکھی تو بلّی گھر چھوڑ کر بھاگ گئی۔
جس ملک کا سفرنامہ لکھتی ہیں وہاں سیاحوں کی آمدورفت کم ہوجاتی ہے۔ ایک ناول لکھا جو صرف 12 کتابی صفحات پر مشتمل تھا اور اس کی تقریب رونمائی میں بھی 12 ہی افراد شریک تھے۔
تنقید نگار نے اس ناول کے لیے لکھا ہے کہ اتنا مختصر ناول لکھ کر موصوفہ نے اردو ادب پر احسان کیا ہے۔ کتاب کا خرچہ اور قاری کا وقت بچا لیا ہے۔
موصوفہ کو کتابوں اور ساڑھی کا بڑا شوق ہے۔ پاکستان جانے والے ہر ادیب و شاعر سے ان کی فرمائش ہوتی ہے کہ واپسی پر تازہ لطیفوں کی ایک کتاب اور جتنی ساڑھیاں آپ تحفہ کرسکیں، لیتےآئیں۔
جوڑا باندھنے سے پہلے موصوفہ نے ساڑھی باندھنا سیکھ لی تھی۔ ہر ادبی تقریب رونمائی میں نئی ساڑھی کی رونمائی موصوفہ اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتی ہیں۔ اپنےساڑھی کے پلّو سے سینکڑوں کو للّو بنا کر باندھے رکھتی ہیں۔ کئی للّوؤں کی گرہ تو اتنی سخت کسی ہوئی ہے کہ وہ بیچارے دین کے رہے، نہ دنیاکے ، دفتر کے نہ گھر کے۔
موصوفہ کو تراجم کرنے اور ’جم‘ جانے کا بڑا شوق ہے۔ ورزش کے دوران کئی فرنچ نظموں کا اچانک ترجمہ وارد ہوگیا۔ جس پر یہ کئی سالوں تک ’جم‘ جانے کے باوجود خوشی سے پھولی رہیں۔
گھر سے زیادہ ادبی تنظیمیں چلانے کا شوق ہے۔ ایک بار رازدارانہ چیخ کے ساتھ بتایا کہ ادبی تنظیم چلانے سے گھر خود بخود چلنے لگتا ہے۔
جس تنظیم کی رکنیت اختیار کرنے میں موصوفہ پہل کرتی ہیں وہاں چند ہی دنوں میں مردوں کی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔
موصوفہ کو پرانی کتابیں اور نئے شعراء جمع کرنے کا بڑا شوق ہے۔ چالیس سال سے کم عمر جو نیا شاعر شہر میں داخل ہو موصوفہ اسے گھر میں بن مانگے پناہ دیتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ چند ماہ بعد ہی وہ شاعر موصوفہ سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔
موصوفہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سیل فون اور رات والے مشروب کی شدید عادی ہیں۔ اپنی تمام محرومیوں کا ازالہ ان ہی دو چیزوں سے کرتی ہیں۔
خدا سے اتنا لگاؤ ہے کہ کئی مجازی خدا بنارکھے ہیں اور ان میں اضافے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں۔ موصوفہ نے پہلے شوہر کے بعد اپنی زندگی میں کئی بار دوسرا شوہر لانے کی کوشش کی مگر مردوں نے دانش مندی سے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
موصوفہ نے اپنے ایک مضمون میں اپنے آپ کو ’ادبی کیڑا‘ کہا ہے جس پر ادبی حلقے کا کہنا ہے کہ ادبی کا لفظ غیر ضروری ہے۔
موصوفہ کی شدید خواہش ہے کہ وہ ایوان صدر اسلام آباد میں سات راتیں بسر کریں اس کے لیے وہ کسی بھی طرح کا صدر برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
موصوفہ ایوان صدر میں بیٹھ کر اپنی سوانح عمری لکھنا چاہتی ہیں جس کا نام ہوگا ’ابھی عمر ہی کیا ہے؟‘
اپنی عمر کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’راز‘ ہے جبکہ مردوں کا کہنا ہے کہ یہ راز اب ان کے انگ انگ نے فاش کردیا ہے۔
ایک قبر کے قریب سوتے ہوئے ادیب کا کہنا ہے کہ موصوفہ کبھی بلا کی خوبصورت ہوتی تھی، اب اس میں صرف بلا باقی رہ گئی ہے۔
آج کل ادبی حلقوں میں شدت سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ موصوفہ کی وفات کے بعد ادبی محفلوں میں ان کی خالی ہونے والی صف اوّل کی نشست کون سبنھالےگا؟
بیشتر انگلیاں جس جانب اٹھ رہی ہیں اس کے بارے میں ہم آپ کو کسی اور مضمون میں بتائیں گے۔
مرزا یاسین بیگ شادی شدہ ہونے کے باوجود مزاح اور صحافت کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہیں اور گلے سے لگائے رکھتے ہیں ۔ کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔











لائیو ٹی وی