منگل باغ خطرہ

پراکسی وار میں عسکریت پسندوں کا استعمال ناکام پالیسی ہے۔ اگرچہ یہ کئی مواقعوں پر درست ثابت ہوچکا لیکن اب، ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس پالیسی میں ناکام ہوچکی ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال منگل باغ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ یہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والا وہ عسکریت پسند ہے جو کبھی تحریکِ طالبان پاکستان کو دور رکھنے کے لیے ریاست کی حمایت سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔
یہ پہلے خود کو طالبان سے فاصلے پر رکھتا تھا لیکن اب منگل باغ نے اپنی بندوق کی نال ریاست کی طرف موڑتے ہوئے طالبان سے اتحاد قائم کرلیا ہے۔
اگرچہ منگل باغ خود اپنے عسکریت پسند گروہ لشکرِ اسلامی کی قیادت رکھتا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی طالبان نے بھی اسے خیبر ایجنسی کے لیے اپنا 'سپریم کمانڈر' منتخب کرلیا ہے۔
امکانات یہی ہیں کہ قائم کردہ اتحاد فوج کی طرف سے وادی تِیراہ اور اس کے اطراف کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فوجی آپریشن کے خلاف، تحریکِ طالبان پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے قوت فراہم کرے گا۔ اطلاعات سے بھی یہی اشارہ مل رہا ہے کہ عسکریت پسند شدید مزاحمت کررہے ہیں۔
عسکریت پسند پشاور کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ سمجھے جارہے ہیں۔ یہ اُن علاقوں سے زیادہ دور نہیں ہیں جو اس وقت عسکریت پسندوں کی مضبوط گرفت میں ہیں۔
منگل باغ مفتی منیر شاکر کا شاگرد ہے، جو اس سے پہلے لشکرِ اسلامی کی قیادت کررہے تھے۔ مفتی کا تعلق دیو بندی مکتبہ فکر سے تھا اور وہ پیر سیف الرحمان اور ان کے بریلوی تعلیمات کے مدرسے انصارالاسلام کے سخت مخالف تھے، جن کے متعلق یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے۔
ان دونوں کے درمیان ایف ایم ریڈیو کے ذریعے گھمسان کی جنگ بھی جاری رہی۔ دونوں اسلام کے اپنے اپنے ورژن کی تبلیغ اور مقامی لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے، باتوں کی لڑائی ریڈیو کے ذریعے لڑتے رہے ہیں۔
ابتدائی طور پر فرقہ وارانہ تنازعات میں ملوث منگل باغ، وقت گزرنے کے ساتھ خیبر ایجنسی کا طاقتور عسکریت پسند بن چکا۔
یہ بھی مالاکنڈ کے مُلا فضل اللہ کی طرح ابھرا۔ اس نے بھی باڑہ میں متوازی طور پر اپنا نظام قام کررکھا ہے، جس میں عدالتیں اور قید خانے بھی ہیں، رہی ریاست تو وہ منہ موڑے دوسری طرف دیکھتی رہی ہے۔
فضل اللہ کی طرح اب یہ بھی قابو سے باہر ہوچکا۔ اس نے تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ جو نیا اتحاد قائم کیا ہے، اُس کے بعد وہ مزید علاقوں پر قابض ہو کر ریاست کو مزید مشکل وقت دے گا۔
قلیل المعیاد کے طور پر، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست عسکریت پسندوں کے قبضوں سے علاقوں کو واگذار کرائے اور جاری آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔
اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ عسکریت پسندوں کے نہ صرف تمام ٹھکانے تباہ کیے جائیں بلکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے۔
طویل المعیاد کے طور پر، اس بات کو حتمی طور پر طے کرلیا جائے کہ تشدد پسندوں کے ساتھ معاملات رکھنا نہایت خطرناک اور غیر دانشمندانہ تجویز ہوگی۔
ایسا کوئی بھی عسکریت پسند جو ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے لیے خطرہ بنے، مزید سنگین ہونے سے پیشتر ہی اس سے سختی سے نمٹ لینا چاہیے۔










لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں