بلوچستان، امن و امان اور انتخابات
انتخابات میں محض کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں لیکن بلوچستان میں عبوری کابینہ کی تشکیل ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے جس سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
کئی دنوں سے اس بات کی امید کی جارہی تھی کہ وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی بالآخر ایک ایسی کابینہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس پر صوبے کی تمام پارٹیاں متفق ہوں۔ لیکن ابھی تک یہ اہم کام انجام نہیں دیا جاسکا ہے۔
ان دنوں شہر میں کچھ ایسی افواہیں گردش کررہی ہیں جن کے مطابق کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ اس لئے بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے کیونکہ سیاسی پارٹیاں نگران حکومت میں اپنے منظور نظر افراد شامل کرانے پر زور دے رہی ہیں۔
وزیر اعلیٰ باروزئی بھی ایک موقع پر اس بات کا انکشاف کر کے لوگوں کو حیران کرچکے ہیں کہ نگران کابینہ میں شمولیت کے خواہشمند بعض افراد انہیں رشوت کی پیشکشیں کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض کچھ دنوں کے لئے کابینہ کی تشکیل سے پرامن اور شفاف الیکشن کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں؟
ایک ایسے وقت میں جب نواب باروزئی حکومت کا بوجھ تنہا اپنے کاندھوں پر اٹھائے پر امن الیکشن کے انعقاد کے دعوے کررہے ہیں بلوچستان میں بدامنی کے کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جنہوں نے حکومتی دعوؤں کو مشکوک بنا دیا ہے۔
سولہ اپریل کوایسے ہی ایک واقعے میں خضدار کے قر یب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر سردار ثناء اللہ زہری کے قافلے کوریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کے بیٹے، بھائی اور بھتیجے سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے قبل سردار اختر مینگل بھی یہ بات کہ چکے ہیں کہ کوئٹہ میں ان پر حملے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ گزشتہ دنوں مچ اور کوئٹہ میں دو ہزارہ مزدوروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ اتوار کے روز پشین میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے اے۔این۔پی کے دو کارکن ہلاک کر دیے گیے تھے۔
چند دنوں کے اندر ہونے والے ان پے در پے واقعات سے لوگوں کے ذہنوں میں شفاف اور پرامن انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات کاجنم لینا ایک فطری بات ہے۔ بعض سیاسی رہنما تو ان واقعات کو الیکشن کے التوا کی سازش سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ان تمام سوالات اور خدشات کے باوجود الیکشن کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ مختلف پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے۔ قوم پرست پارٹیوں کے علاوہ مذہبی پارٹیاں بھی اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔
سردار اختر مینگل سے پختونخوا میپ، عوامی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ملاقاتیں کی ہیں جن میں بعض نشستوں پر مشترکہ امیدوار لانے سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ قوم پرست پارٹیوں کو امید ہے کہ وہ مل کر مستقبل میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے سکتی ہیں جو صوبے میں عرصے سے جاری امن و امان کی صورت حال پر قابو پا سکے۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے تو اس بار ان کے کسی مشترکہ پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام شروع سے ہی صوبے کی ایک مضبوط مذہبی جماعت رہی ہے جن کے اراکین کی ایک قابل ذکر تعداد گزشتہ کئی سالوں سے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینیٹ میں بھی حصہ دار رہی ہے، لیکن پچھلے سالوں کے دوران جمیعت میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ اس بار انتخابات کے نتائج پراثر انداز ہوسکتی ہے جسکا نقصان جمیعت (ف) کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ان کے مخالف دھڑے یعنی جمیعت علمائے اسلام (نظریاتی) نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرتے ہوئے کامیابی کی صورت میں جہاد کو سرکاری پالیسی کا حصہ بنانے کا اعلان کردیا ہے۔
جماعت اسلامی بھی مذہبی جماعتوں سے تعلقات استوار کرنے کے بجائے قوم پرستوں اورلبرل حلقوں سے راہ و رسم بڑھانے میں مصروف ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے اپنے ایک ضابطہء اخلاق کے زریعے مذہب اور فرقے کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی سختی سے ممانعت کردی ہے اور اس عمل کو قابل سزا جرم بھی قرار دیا ہے لیکن لگتا ہے کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے اس ضابطہ ء اخلاق کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ہے لہٰذا حسب سابق عقیدے کی بنیاد پر ووٹ مانگنے اور مخالفین پر کفر کے فتوے لگانے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔
یوں تو پاکستان میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر بننے والی سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں۔ کئی جماعتیں ایسی ہیں جو بظاہر دینِ اسلام کی بات کرتی ہیں لیکن ان پر کسی ایک خاص مسلک کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
جبکہ کچھ پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو کھلم کھلا مسلک یا فرقے کی بنیاد پر سیاست کرنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتی ہیں۔ الیکشن میں عقیدے کی بنیاد پر ووٹ مانگنا کوئی نئی بات نہیں۔ مذہبی سیاسی پارٹیوں کے لئے تو یہ ووٹ کے حصول کا ایک آسان اور سستا زریعہ ہے۔ ایسی پارٹیاں عموماَ اپنے لئےایسے انتخابی نشانات کا انتخاب کرتی ہیں جن کی بناء پر ووٹ کا حصول آسان ہو۔
بلوچستان کی ایک قوم پرست سیاسی پارٹی کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہی کہ اس کی مخالف مذہبی پارٹی اپنے انتخابی نشان کتاب کو قرآن سے تشبیہ دے کر ووٹ مانگتی ہے جبکہ ان کے انتخابی نشان درخت کو جہنم میں اگنے والے ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی جاتی ہے جس سے ہمیشہ زہر ٹپکتا رہتا ہے۔ اور پھر لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جن کو جنت میں جانے کی خواہش ہے وہ قرآن کو ووٹ دیں اور جن کو جہنم میں جانے کا شوق ہے وہ "زوقم" نامی زہر کے درخت کو ووٹ دیں؟
اس مرتبہ بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں بلکہ منافرت پر مبنی انتخابی نعروں میں شدت نظر آرہی ہے۔ اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس مرتبہ اس میں دو ایسی پارٹیاں بھی حصہ لے رہی ہیں جن پر واضح طور پر فرقہ واریت کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ایک گروہ صحابہ کرام کے نام پر ووٹ حاصل کرنے میں کوشاں ہے اور دوسرا شہدائے کربلا کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہے۔ ان کے پاس فتوؤں کی پٹاری ہے اور جو بھی ان سے اختلاف کرتا نظر آتا ہے اس کے خلاف جھٹ سے دین مخالف اور مذہب دشمن ہونے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔
اگر کسی سیاسی پارٹی نے کسی نشست پردوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے کسی امیدوار کو ٹکٹ دے رکھا ہے یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کی ہے تو گویا اس نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہوئے ایک بڑی مصیبت کو دعوت دے دی ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی اتحاد کو جواز بنا کر فتوؤں اور بہتان طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بعض پارٹیوں کو اس بات کی شکایت ہے کہ مخالفین رات کی تاریکی میں ان کے جھنڈے اتار کر نذر آتش کررہے ہیں جبکہ بعض پارٹیوں نے انتخابی مہم کے دوران مساجد کے استعمال کے خلاف الیکشن کمیشن سے نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔ ان حالات میں امن و امان کی صورت حال پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان خصوصاَ کوئٹہ گزشتہ ایک دہائی سے بدامنی اور فرقہ واریت کی آڑ میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔ فروری میں ہونے والے ہزارہ ٹاون سانحے کے بعد حکومتی اداروں کے اقدامات کے نتیجے میں بعض دہشت گردوں کی ہلا کت اور بعض دیگر کی گرفتاری کے بعد حالات بظاہر کچھ پرسکون نظر آرہے ہیں۔ لیکن ہر وقت کسی حادثے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور ہر کوئی اس بات کا خدشہ ظاہر کرتا نظر آتا ہے کہ اگر حکومتی اداروں نے ماضی کی طرح زرا بھی غفلت کا مظاہرہ کیا تو کبھی بھی اور کہیں بھی کوئی ناخوشگوار سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔
صوبائی الیکشن کمیشن پہلے ہی کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دس اضلاع کو حساس قرار دے چکا ہے جہاں پولنگ کے دن فوج کو سٹینڈ بائ رکھنے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور دیگر ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آنے والے انتخابات کو مکمل پر امن اور شفاف بنانے کی خاطر بہترین منصوبہ بندی کریں اور امیدواروں سمیت ان کے کارکنوں کی مکمل حفاظت کا انتظام کریں۔
بلوچستان کے عوام کو امید ہے کہ اگر انتخابات منصفانہ اور پرامن ماحول میں ہوئے تو آنے والی حکومت صوبے کو بد امنی اور فرقہ واریت سے نجات دلا سکتی ہے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں