حال ہی میں جب پاکستان آنا ہوا تو میں نے پایا کہ کتابوں کی دکانوں میں اضافہ ہوا ہے البتہ عوام کی دلچسپی اب بھی مطالعے میں پیدا نہیں ہوئی۔ ہمیں اب اپنی مووی نائٹس کو ریڈنگ نائٹس میں بدلنا ہوگا۔ ہمیں کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں کا بالکل ویسی ہی گرم جوشی کے ساتھ بار بار رخ کرنا ہوگا جیسی تیزی ہم ریسٹورینٹس اور شاپنگ مالز جاتے وقت دکھاتے ہیں۔
اگر ہم قرآن مجید، حدیث اور مسلم ادب کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ یہ تمام اہم ذرائع ہمیں کائنات پر غور و فکر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ایسا زبردست مطالعے کے بغیر ممکن نہیں۔ مسلم معاشروں نے صرف اس لیے عروج کو چھوا کیونکہ غور و فکر، اپنے علم کی خود تخلیق کے ساتھ ساتھ دیگر علوم سے علم حاصل کرنے میں انہوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
آج ہمیں یہ مقام دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے‘۔
یہ مضمون 8 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔