بنگلہ دیش اب بھوکا نہیں

21 نومبر 2013
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد، فائل فوٹو۔۔۔۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد، فائل فوٹو۔۔۔۔

چوتھائی صدی سے بھی کم عرصے میں بنگلہ دیش بھوک اور غذائی قلت کا خاتمہ کر کے پاکستان سے آگے نکل گیا ہے- بنگلہ دیش، سنہ انیس سو نوے سے بھوک کے خاتمے کے لئے پاکستان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اس کے اعداد و شمار میں نصف تک کمی لا کر ناصرف پاکستان بلکہ ہندوستان کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے-

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی جاری کردہ حالیہ گلوبل ہنگر انڈکس (جی ایچ آئی) یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھوک کی عالمی شرح میں سنہ انیس سے نوے کے بعد سے بہتری آئی ہے-

تاہم، جنوبی ایشیا اور صحارا کے جنوب میں واقع افریقہ میں بھوک کی بدترین شکل پائی جاتی ہے- امریکا میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کم و بیش آٹھ سو ستر ملین افراد بھوکے ہیں-

بھوکے ننگے بنگالیوں جیسے حقیر حوالے آج بھی پاکستانی ڈکشنری کا حصّہ ہیں- جب بنگلہ دیش ایک خونی جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہوا تو مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جنگ سے متاثرہ سینکڑوں ہزاروں بنگلہ دیشیوں اور دیگر لوگوں کے بارے میں کچھ نہ سوچا- حتیٰ کے سنہ انیس سو اکہتر کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو نے بنگلہ دیشیوں کو سور تک کہا-

تیزی سے سنہ دو ہزار تیرہ کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے لوگوں کو خوراک مہیا کرنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے جبکہ بنگلہ دیش انسانی ترقی میں اس سے کہیں آگے پہنچ گیا ہے-

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جس سے کسی زمانے میں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں آج جنوبی ایشیا کا ایک بیمار (اور بھوکا) فرد کیوں بن کر رہ گیا ہے-

پاکستان بھوک کے خاتمے میں جنوب ایشیائی ممالک کے درمیان سب سے کم پیشرفت والا ملک ہے جی ایچ آئی، بتاتی ہے کہ مختلف ممالک نے پچھلی دو دہائیوں میں کس طرح بھوک اور بیماریوں کا مقابلہ کیا ہے- رپورٹ میں بھوک اور غذائی قلت کے خلاف سنہ انیس سو نوے کی جنگ میں جنوبی ایشیا کو حاصل ہونے والے ابتدائی فوائد کے بارے میں بتایا گیا ہے-

ٹھیک اسی زمانے میں، صحارا کا جنوبی افریقہ، انسانی ترقی میں جنوبی ایشیا سے بہت پیچھے تھے- تاہم، سنہ دو ہزار سے اس علاقے نے رفتار پکڑ لی اور سنہ دو ہزار تیرہ میں اس نے عمومی طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک کے مقابلے میں بھوک کے حوالے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے-

جنوبی ایشیا میں ترقی کی سست رفتار کے باوجود، بنگلہ دیش ان دس ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے سنہ انیس سے نوے سے بھوک کے خاتمے میں سب سے زیادہ کار کردگی دکھائی ہے-

بھوک کے خاتمے میں بنگلہ دیش کی کامیابی غور طلب ہے، یہ تعین لگانے کے لئے کہ آیا یہ ایک درست منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے یا محض اتفاق کا نتیجہ ہے- بنگلہ دیش نے ناصرف پاکستان بلکہ ہندوستان، نیپال اور سری لنکا کو جس رفتار کے ساتھ بھوک کے خاتمے میں شکست دی ہے وہ یقیناً اچھی منصوبہ بندی اور اس کے اطلاق کا ثمر ہے-

جی ایچ آئی، تین عناصر کا اوسط شمار ہے: آبادی میں غذائی قلت کا رجحان، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں وزن کی کمی کا رجحان اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات-

تازہ ترین اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں غذائی قلت کا رجحان اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں اموات کی شرح کم ہے- تاہم، پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں وزن کی کمی کا رجحان قدرے کم ہے-

جنوب مغربی بنگلہ دیش میں کی جانے والی ریسرچ کے مطابق بھوک کے اثرات موسمی ہوتے ہیں- ایسے وقتوں میں جب فصل کی پیداوار کم ہو تو خوراک کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور نتیجتاً مناسب خوراک تک رسائی کم ہو جاتی ہے-

ریسرچرز نے دریافت کیا کہ اس صورتحال سے زیادہ تک غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے- حکومت کی طرف سے محفوظ ذرائع کا قیام اور ساتھ ہی آسان شرایط پر قرضے کا استعمال، ان مشکل دنوں میں غریب کے لئے خوراک کی فراہمی میں معاون ہوتا ہے-

محفوظ ذرائع کے علاوہ، بھوک میں کمی بہتری کے وعدوں اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے- بنگلہ دیش کی بجٹ دستاویز میں غذائیت کے لئے ایک علیحدہ اندراج موجود ہے- ساتھ ساتھ، بنگلہ دیشی آئین کے آرٹیکل 15 میں ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو بنیادی ضروریات زندگی بشمول خوراک مہیا کرے-

سنہ دو ہزار بارہ میں بنگلہ دیشی حکومت نے ‘تمام اوقات میں ملک کے تمام افراد کے لئے’ خوراک فراہم کرنے کا عزم کیا- ’دی بنگلہ دیش انٹیگریٹڈ نیوٹریشن پروجیکٹ ‘ (بی آئی این پی) سنہ انیس سو پچانوے کے غذائی نتائج میں بہتری لائی-

سنہ دو ہزار دو میں، نیشنل نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کیا گیا- ساتھ ہی ان کوششوں میں ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونزیشن اینڈ وٹامن اے سپلیمنٹیشن (expanded Program on immunisation and Vitamin-A supplementation) کا بھی اضافہ کیا گیا-

یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح اسٹریٹجک پلاننگ کے ذریعہ بنگلہ دیش میں بھوک کا تیزی کے ساتھ خاتمہ کیا گیا- مندرجہ بالا کامیابیوں کے باوجود، بنگلہ دیش کی سترہ فیصد (پچیس ملین) آبادی بھوک کا شکار ہے- اصل میں، اکتالیس فیصد پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شرح افزائش کم ہے، اور دیگر سولہ فیصد بچے برباد ہو چکے ہیں- اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بنگلہ دیش کو اپنے لوگوں کو خوراک کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک طویل سفر طے کرنا ہے-

یہ دیکھ کر کہ تمام جنوب ایشیائی ممالک، بھوک کے خاتمے میں صحارا کے جنوبی افریقہ سے کافی پیچھے ہیں، ان ریاستوں کے سربراہان کے لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ وہ بھوکوں کو غذا فراہم کرنے کے لئے مشترکہ کوششوں کا آغاز کریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں کیے جانے والے کامیاب اقدامات کا جائزہ لیا جاۓ تاکہ ہمارے درمیان موجود خوراک سے محروم افراد کو تحفظ حاصل ہو-

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں