تعلیم کا فن

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2014

مشہور کہاوت ہے، 'ڈاکٹر اپنی غلطیاں دفنا دیتا ہے، وکیل انہیں لٹکا دیتا ہے اور صحافی اپنی غلطی فرنٹ پیج پر چھاپ دیتا ہے'- میں اس میں ایک اور اضافہ کرنا چاہوں گی، کہ استاد کی غلطی آنے والی نسلوں میں نظر آتی ہے-

پاکستان کا کیس لے لیجیے جہاں تعلیم میں بے اطمینانی گہرائی تک پھیلی ہوئی ہے- اس کی ابتدا تو کئی دہائیوں پہلے ہو گئی تھی اور اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا کیونکہ ہر نسل کو دی جانے والی بدتر تعلیم نے آگے آنے والی نسلوں کے لئے بدترین اساتذہ کی فراہمی کو یقینی بنایا-

شکر ہے اب نظام تعلیم کی اس خرابی کو پہچان کر، ماضی میں کی جانے والی کوتاہیوں کو سدھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں- اب ٹیچرز پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے- اچھی ساکھ کے حامل تمام سکول باقائدگی کے ساتھ اپنے ٹیچرز کے لئے ٹریننگ مہیا کر رہے ہیں- سیمینار اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے- تاعمر تعلیم کا تصور جڑ پکڑ رہا ہے-

یہی وجہ ہے کہ، چلڈرن لٹریری فیسٹیول کے سپانسرز کی جانب سے ٹیچرز لٹریری فیسٹیول کے انعقاد کا خیر مقدم کیا گیا- ملک میں اپنی قسم کے اس پہلے فیسٹیول کا انعقاد کراچی میں ہوا- ٹرن آوٹ کافی اچھا تھا- تاہم پاکستان کے سب سے بڑے تعلیم یافتہ شہر ہونے کی حیثیت سے میرا ماننا ہے کہ شرکاء کی تعداد زیادہ ہونی چاہیے تھی-

دو لحاظ سے ٹی ایل ایف خاصی کامیاب رہی- اول تو ٹیچرز کا ذوق شوق قابل دید تھا- اس فیسٹیول میں گلشن اور کورنگی تک کے شرکاء موجود تھے- یہ اس بات کا ثبوت تھے کہ ایسے ایونٹس وقت کی ضرورت ہیں جہاں ٹیچرز دوسرے ہم پیشہ افراد سے ملیں اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھیں- دوسرے یہ کہ انکی ملاقات ایسے اہل اور باوسائل افراد سے ہوئی جو تاثرات کے ساتھ ریڈنگ، تخلیقی رائٹنگ، کلاس رومز میں نئے میڈیا کے استعمال اور بلینڈڈ لرننگ (blended learning ) کے لئے ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں-

ٹی ایل ایف کی ایک اور کامیابی ٹیچرز کے لئے ایسا پلیٹ فارم تھا جہاں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں- ان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے یہ سب ضروری ہے- ظاہر ہے، ٹیچرز کو قومی/صوبائی پالیسی سازوں اور اسکول مینجمنٹ کی طرف سے وضع کردہ فریم ورک کے تحت کام کرنا ہوتا ہے- لیکن جدّت اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ بہت سی معمولی مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے-

مثال کے طور پر سٹیزنز آف پاکستان آرکائیو کی طرف سے صالحہ عالم شہزادہ نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے اکنامکس کے سٹوڈنٹس کو سادے سفید کاغذ پر مختلف رنگوں سے نشان لگا کر گیم تھیوری سمجھائی، اس پر اسکول مینجمنٹ نے رنگین پیپر کے 'ضرورت سے زیادہ' استعمال پر اعتراض کیا-

اصل امتحاں تو آگے جا کر آۓ گا- کیا ٹی ایل ایف ٹیچرز کی تربیت کے لئے نئے راستے پیدا کرے گی؟ کیا یہ سی ایل ایف کی طرح ایسی تحریک بن پاۓ گی جو عوامی سطح پر مرکزیت سے علیحدہ ہو؟

ٹی ایل ایف کا ایک مثبت فیچر یہ بھی تھا کہ اس میں اسکول مینجمنٹس کے بھی کئی ارکان شریک ہوۓ، امید ہے کہ وہ ایسی تبدیلیاں ممکن بنائیں گے جنھیں گزشتہ جمعرات کے بہترین تجربے کے بعد ٹیچرز اپنانا چاہیں گے- ٹریننگ ورکشاپ میں شریک ٹیچرز کو یہ شکایت تھی کہ اسکول مینجمنٹس جدّت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں-

اب جبکہ امید ہے کہ ٹی ایل ایف، تعلیمی میدان میں ایک بڑا کیٹلسٹ بن جاۓ گا، ایسے ٹیچرز بھی موجود ہیں جو کم بجٹ کے ساتھ تعلیمی میدان میں سرگرم ہیں- یہ دیگر ٹیچرز کے لئے ایسی مثالیں ہیں، جن پر عمل کر کے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علم کے مقدس پیشے کی خدمت کر سکتے ہیں-

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ نباتات کی سابقہ منتظم، پروفیسر صالحہ احمد کی مثال لے لیں، سنہ دو ہزار میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی، بڑھتی ہوئی عمر اور خراب صحت انکے تعلیمی تجربے، علم اور اپنے پیشے سے محبّت کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے- انہوں نے اپنے گھر کے دروازے محلے میں موجود کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کے لئے کھول دیے اور اس طرح پیام تعلیم ایجوکیشن سینٹر کی ابتداء ہوئی-

انہوں نے اپنے پاس آنے والے نوجوانوں کی مدد کے لئے دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ رٹائرڈ ٹیچرز کا بھی انتظام کیا- یہ بچے اسکول تو جاتے تھے لیکن انہیں کسی استاد کی مدد کی ضرورت بھی تھی جسکی کمی پیام تعلیم نے پوری کردی، یہ بچے اس ادارے سے بھرپور طور پر مستفید ہوئے- ان کا مقصد بچوں میں تعلیم سے محبّت کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافہ اور لینگویج میں مہارت پیدا کرنا تھا -

پروفیسر صالحہ کا نقطہ نظر بہت سادہ اور عملی ہے- ان کے پاس چھ کلاسیں ہیں لیکن آپ کو ہر کلاس میں مختلف سائز کے بچے نظر آئیں گےکیونکہ یہاں بچوں کی عمر نہیں بلکہ تعلیمی قابلیت کے لحاظ درجہ بندی کی جاتی ہے- جب ان میں بہتری آتی ہے تو انہیں اگلے درجے میں بھیج دیا جاتا ہے- چونکہ کلاسیں چھوٹی ہیں اس لئے تمام بچوں پر توجہ دی جاتی ہے- اسی لئے بچے حاضر جواب ہیں اور ان کا فہم اچھا ہے-

آئیڈیا یہ ہونا چاہیے کہ جو بھی تعلیم یافتہ ہے وہ اپنے علم کو ضایع نہ ہونے دے- اسے ایسے شخص کو منتقل کیا جاۓ جو اس سے محروم ہے اور اس کام کے لئے روایتی اسکول کا ہونا ضروری نہیں- اور فن تعلیم کے لئے، ٹی ایل ایف تو موجود ہے ہی-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں