پاکستان: ٹی بی سے متاثرہ پانچواں بڑا ملک

25 مارچ 2014
دنیا میں ٹی بی سے مرنے والے افراد کی 95 فیصد تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ تصویر بشکریہ یوریکا الرٹ
دنیا میں ٹی بی سے مرنے والے افراد کی 95 فیصد تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ تصویر بشکریہ یوریکا الرٹ

لاہور: پاکستان میں ٹی بی ( تپ دق) کے مرض میں آبادی کا ایک بڑا حصہ مبتلا ہے جبکہ مختلف امراض کیخلاف مزاحمتی ٹی بی ( ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ٹی بی) کا شکار چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔

پیر کے روز عالمی یومِ ٹی بی کے موقع شوکت خانم میموریل ہسپتال اور کینسر ریسرچ سینٹر میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی خان نے حکومت اور عوام پر زوردیا کہ وہ ٹی بی کے خاتمے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

' پوری دنیا میں ٹی بی کے شکار ممالک میں پاکستان کا شکار پانچویں بڑے ملک میں ہوتا ہے،' ڈاکٹر خان نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال ٹی بی کے 420,000 نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تنگ ، تاریک اور گندی جگہوں پر رہائش، غربت اور ناکافی خوراک ہی ٹی بی کے سلسلے میں عالمی چیلنج ہیں۔ انہی کی وجہ سےیہ مرض پھیل رہا ہے۔

ٹی بی یا ٹیوبر کلوسس بیکٹیریا سے پھیلنے والا مرض ہے جو ذیادہ تر پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

' یہ ایک سے دوسرے شخص تک ہوا کے ذریعے دوسرے شخص کی کے حلق اور پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور سانس کی ایک بڑ بیماری ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق مسلسل کھانسی، کبھی کبھی تھوک میں خون آنا، سینے میں درد، وزن کم ہونا، بخار، اور رات میں پسینہ ٹی بی کی علامات میں سے شامل ہوسکتا ہے۔ یہ مرض نوجوانی اور نو عمری میں بھی اثر انداز ہوتی ہے اور زندگی کے اہم ترین برسوں میں مرض کی وجہ بنتی ہے۔

تاہم ہر عمر کے افراد اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ٹی بی سے مرنے والے 95 فیصد کیس ترقی پذیر ممالک میں ہوتےہیں۔ چھ سے نو ماہ کی ایٹی بایوٹکس ادویات سے اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

انہوںنے کہا کہ ٹی بی کی معیاری دوائیں کئ عشروں سے استعمال کی جارہی ہیں جبکہ یہ مرض دواؤں کے اثر سے آزاد ہوتا جارہا ہے۔

' ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ ( کثیر ادویاتی مزاحمت) ٹی بی میں فرسٹ لائن کی دوائیں کام نہیں کرتیں۔ اس کی اہم وجہ درست طور پر علاج نہ کرانا ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان جیسے ملک میں ناکافی اور غیرمعیاری ادویات سے بھی یہ مرض پیچیدہ ہورہا ہے۔ اگر ٹی بی کا مرض جسم میں موجود رہے تو امنیاتی نظام ( امیونٹی سسٹم ) سے وابستہ بیماریاں بھی پیدا کرسکتا ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔

ایم ٹی ڈی آر ٹی بی کا علاج سیکنڈ لائن دواؤں سے ہی ممکن ہے۔

ڈاکٹر اشرف نے ٹی بی کے مرض میں مناسب علاج، نگرانی اور معاشرے کے تعاون پر زور دیا کیونکہ اس طرح اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس سیمینار کا انعقاد پنجاب ٹی بی کنٹرول پروگرام نے کیا تھا جس میں وزیرِ اعلیٰ کے مشیرِ صحت خواجہ سلمان رفیق نے بھی شرکت کی۔

پنجاب ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ دنیا کے 22 ممالک میں جہاں ٹی بی موجود ہے پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں