غیر ملکی پاسپورٹ کے لیے شادیاں

08 ستمبر 2014
لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔
لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

پہلے زمانے میں ایسا ہوتا تھا، کہ جب بھی شادی ارینج ہو رہی ہوتی، تو سب سے زیادہ وقت جہیزپرمذاکرات میں صرف ہو جاتا تھا۔ گاڑی دی جائے، یا کیش، کیا دولہا کو بزنس شروع کر کے دیا جائے، یا اس کے خاندان کی خواتین کو سونے سے لاد دیا جائے۔ کیا دلہن کو ڈھیر سارا فرنیچر دے کر بھیجا جائے، یا ڈھیر سارا سونا۔

یہ غور و فکر اب بھی بہت وقت لیتا ہے، لیکن پاکستان کی مڈل کلاس میں اب دلہا یا دلہن کی شہریت بھی ایک اہم فیکٹر بنتا جا رہا ہے۔

ایک غیر ملکی پاسپورٹ کا ہونا، پاکستان سے باہر منتقل ہو کر کہیں اور کام کرنے کی اہلیت و قابلیت کی شادی کے لیے خاصی اہمیت ہے۔ اس کے بعد دوسرے ممالک کے امیگریشن قوانین اور دوسرے معاملات ڈرائنگ روم میں زیر بحث آجاتے ہیں۔

رسم و رواج، کلچر، اور رومانس، سب کچھ ایک طرف رہ جاتا ہے، اور شادی سے زیادہ دوسرے اہم مسائل سامنے آنے لگتے ہیں۔ پاکستان کی مڈل کلاس میں اس نے نا صرف شریک حیات کے انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا ہے، بلکہ ہاتھ مانگنے، شادی کے وقت اور مقام کو بھی بدل دیا ہے۔

غیر ملکی پاسپورٹ ان جوڑوں، اور ان گھرانوں کو بھی قریب لا سکتا ہے، جو ویسے سوشل اسٹیٹس، یا مسلک وغیرہ کی بناء پر قریب نا آئیں۔ رشتے قائم کرنے کے اس مرحلے میں ویزے وہ اہم چیز ہیں، جو نا صرف ایک واجبی شکل و صورت کی حامل لڑکی کو پری چہرہ بنا سکتے ہیں، بلکہ ایک عام سے دکھنے والے دولہا کو ذہین اور کرشماتی شخصیت بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔ اور اگر شادی کے بعد روانگی جلد متوقع ہو، تو سر میں درد کرنے والی ساسیں کم درد سری کرتی ہیں، جبکہ سسر بھی تحکمانہ رویہ کم کر دیتے ہیں۔

کچھ ممالک کے سفارت خانے ویزا دینے میں اتنی تاخیر کرتے ہیں، کہ نکاح کے بعد رخصتی کا انتظار کر کر کے لوگ تھک جاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ شادی کے کئی دن و مہینے بعد بھی دولہا یا دلہن میں سے کوئی ایک امیگریشن کے انتظار میں پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔

لیکن نکاح تو جلد از جلد کرنا ہی ہوتا ہے، تاکہ اسے سفارت خانے کے سامنے شادی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس کے بعد تصدیق کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور شادی کے تمام فنکشن اسی حساب سے ترتیب دیے جاتے ہیں۔

سب کچھ ٹھیک رہے اگر سفارت خانے، جن کے ذمے شادی کی قانونی حیثیت کو جانچنا ہے، فراڈ پکڑنے کے لیے سوال جواب اور اتنی لمبی تفتیش نا کیا کریں۔

مغربی ممالک میں شادی دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے، جس میں دو گھرانے ایک آپشنل کردار ادا کرتے ہیں، نا کہ غیر معمولی اہم کردار۔ شادی سے پہلے پروپوز کرنے، اور پھر ازدواجی تعلقات کے حوالے سے سفارت خانوں کو ایسے ثبوت چاہیے ہوتے ہیں، جن سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ لڑکا لڑکی پہلے سے ایک دوسرے کے قریب تھے۔

ایک کیس میں، ایک سفارت خانے نے ایک لڑکی، جو کہ نکاح نامہ اور شادی کی کئی تصاویر ساتھ لے گئی تھی، سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی اپنے والدین کے گھر پر مقیم ہے۔

ایک اور سفارت خانے کے انٹرویور نے ایک لڑکی سے پوچھا، کہ آیا نکاح صرف امیگریشن کے لیے کیا گیا تھا، اور ابھی شادی کی تقریبات ہونا باقی ہیں۔ ایسی شادی سفارت خانے والوں کے نزدیک نا مکمل قرار پاتی ہے۔ ایک اور کیس میں ایک لڑکے سے پوچھا گیا، کہ جوڑے کے درمیان شادی سے پہلے کسی رابطے کے کوئی ثبوت، ساتھ منائی گئی سالگراہوں وغیرہ کی تصاویر موجود کیوں نہیں۔

مڈل کلاس کے وہ لوگ، جو دوسرے ممالک میں منتقل ہونے کے لیے دوسرے ممالک سے شریک حیات ڈھونڈتے ہیں، ان کے لیے شادی کے بعد کسی اور سرزمین منتقل ہونے کا خواب پورا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

فراڈ پکڑنے کے لیے اس طرح کے سوالات ان رشتوں کی مضبوطی کو اچھی طرح جانچ سکتے ہیں۔

کیا دوسرے ممالک کے پاسپورٹ کو مستقبل کی خوشی کی گارنٹی سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا خاندان صرف باہر سیٹل ہونے کے لیے شادی کی کامیابی کے لیے ضروری عوامل پر کم توجہ دینے لگے ہیں؟

عدم تحفظات تو بہت ہیں، اور ان سب کی وجہ سے ان معاشروں میں شادیوں اور رشتے مانگنے کے طریقے بدل رہے ہیں، جہاں رشتے طے کیے جاتے ہیں۔ خرچہ اٹھانے والے شریک حیات، اور جس کی کفالت کی جارہی ہے، ان کے درمیان ہر طرح کی ناہمواری مغرب کے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہے۔

جو شریک حیات شہریت دلواتا ہے، اکثر وہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ شادی کس طرح ہو گی، اور ڈاکیومیںٹس، ویزا درخواست میں کیا چیز کس طرح دکھائی جائے گی۔

ایک جھوٹ جو بیرون ممالک سیٹل ہونے کے خواہشمند لوگ اپنے آپ سے بولتے ہیں، وہ یہ کہ ملک بدری کا درد، اور اپنوں سے بچھڑنے کا غم، معاشی بہتری سے ختم ہوجائے گا۔

یہ جھوٹ بھلے ہی ضروری ہو، پر یہ بھی سچ ہے کہ روابط، تعلقات، اور شادیاں سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے، کیوںکہ اگر سب نہیں تو زیادہ تر لوگ باہر منتقل ہونے کے لیے شادی کرتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Inayatullah Sep 08, 2014 03:06pm
Abh Itina bhi sach mat bolain app.
Khalid Khan Sep 08, 2014 06:27pm
As Salam Alikum Dukhtee raag per hath rakha hai aap naay although you are doing this for your Phd (Phira hoa demagh Degree ) - in our status say lush push society jahan sirf aur sirf Larka yaa larkee kaay background dekhaa jata hai aur isee buniyad per shadi hootee hai even in Lower middle class this thing is common these days but Afsoos saad Afsoos aik bhee Insaan yaa nahee sochta kah woo bhee isee maashray kaa hisa hai aur yea saab kuch us koo bhee sahnaa hai .... Itnay talented , Educated loog bhee kabhe kabhee jahalat saay bharpoor batain kartain hain aur hike bana kar is artificial see zindagi main jeetay hain. Aisay bhee hain joo baicharay saab kuch hoo kar bhee rishtaa nahee dhoond karpatay yaa dhoondh paatay .. yaa aisaay bhee hai joo aitbaar kar kay bhee bay aitbaar hoo jaatay hain ...... Iss Society main jab taak gharoon main bachoon koo yea nahee samjaya jaay gaa kah baita / baitee baray hoo kar aik achaa insaan bunna hai tab taak yeahee hoota rahaay gaa . Makafat e Amal hai. joo boya hai woo too kaatnaa paray gaa
rashid iqbal Sep 10, 2014 11:50am
Very good site màm
rashid iqbal Sep 10, 2014 11:51am
Ap logo m help krne ka jazba rkho