دنیا کے دس حیرت انگیر غاروں کی سیر

دنیا کے دس حیرت انگیر غاروں کی سیر

سعدیہ امین اور فیصل ظفر

غار اکثر بوسیدہ، مٹی سے بھرے، بدبودار اور نمی سے بھرپور ہوتے ہیں، جہاں جنگلی حیات سے بھی سامنا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہ اتنے بڑے بھی ہوسکتے ہیں کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سنگ مرمر، کرسٹل یا سنگ سیاہ، ہمارے کرۂ ارض پر سوراخوں سے بھی زیادہ بڑھ کر زبردست ہوسکتے ہیں اور چند غار تو ایسے ہیں ان کو دیکھنے والوں کی سانسیں تھم کر رہ جاتی ہیں۔

ایسے ہی دنیا کے چند سب سے زبردست غاروں کی سیر کریں جہاں جانے والوں کو لگتا ہے کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔


آئس رائزن ویلٹ غار


آسٹریا کی آئس رائزن ویلٹ غار دنیا کی سب سے بڑی برفانی غار ہے جو لگ بھگ پچاس کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اسے "برفانی دیوتاﺅں کی دنیا" بھی کہا جاتا ہے اور اس کی دریافت 1879 میں ہوئی، اس کے لاتعداد چیمبرز آپس میں جڑے ہوئے ہیں جس کی بدولت ہر جگہ ہوا کی روانی زبردست ہے، اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کے اندر پھیلے غاروں کا سلسلہ بہت ٹھنڈا ہوتا ہے اس لیے اس کے اندر جانے والوں کے لیے ہر موسم میں گرم ملبوسات کا استعمال لازمی ہوتا ہے، یہاں کی ایک حیرت انگیز خوبی یہ ہے کہ یہاں جمع برف مختلف رنگوں میں ہوتی ہے جس کی وجہ دھاتی اجزاء ہوتے ہیں۔

یہ غاریں سلازبرگ کے ویرفین نامی گاﺅں کے پاس واقع ہے اور یہاں جانے سے پہلے سیاحوں کو لیمپ دیئے جاتے ہیں جو غار کے اندر برف کے نظارے کو حیرت انگیز شکل دے دیتے ہیں، مگر بہت کم حصے پر ہی لوگ گھوم پھر سکتے ہیں — بشکریہ وکی میڈیا کامنز


فنگل غار


سٹافا آئی لینڈ اسکاٹ لینڈ کا ایسا جزیرہ ہے جہاں کوئی آبادی نہیں مگر یہ متعدد سمندری غاروں کی میزبانی ضرور کرتا ہے جس میں سب سے مشہور فنگل غار ہے، جسے سروں یا ترانوں کا غار بھی کہا جاتا ہے۔

یہ غار ستر میٹر بڑا ہے اور مکمل طو پر سنگ سیاہ سے بنا ہوا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زمانۂ قدیم میں آتش فشاں کے لاوے کے بہنے سے وجود میں آیا جو سمندر میں گرتا تھا، 1829 میں کمپوزر فیلکس مینڈیلسون نے اس غار کا دورہ کیا اور وہاں گونجنے والی آوازیں اس کو متاثر کرگئیں جس کے بعد سے ہی اسے سروں یا ترانوں کا غار بھی کہا جانے لگا — وکی پیڈیا فوٹو


بلیو گروٹو


اٹلی کے علاقے کیپری کا سب سے مقبول ترین سیاحتی مقام گروٹو آزورا ہے، ایک ایسا غار جس کے آدھے حصے پر سمندری لہریں بہتی نظر آتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کے اندر نیلی روشنی کا نظارہ بھی دلفریب ہوتا ہے، زمانۂ قدیم میں اس غار کو شیطانوں اور روحوں کا ڈیرہ سمجھا جاتا تھا۔ مگرحقیقت تو یہ ہے کہ نیلی روشنی غار کے باہر موجود پانی کی سطح پر سورج کی روشنی کے باعث فلٹر ہوکر غار کے اندر پھیل جاتی ہے، پانی کے اندر جاکر دیکھا جائے تو اوپر سب کچھ سلور رنگ کا ہی نظر آتا ہے جس کی وجہ پانی میں موجود بلبلے ہوتے ہیں، یہاں جانے کا بہترین وقت سہ پہر کے آغاز میں ہوتا ہے جب سورج کی روشنی غار کے باہر پوری آب و تاب سے جگمگا رہی ہوتی ہے — رائٹرز فوٹو


وسٹیریا ٹنل


کاواچی فیوجی گارڈنز اس ٹنل نما غار کے اندر واقع ہے جس میں وسٹیریا نامی پودے کے درخت اور لگ بھگ بیس دیگر اقسام کے درخت اس کی خوبصورت کو بڑھا دیتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا رنگ جامنی، سفید، نیلا، بنفشی نیلا اور گلابی ہوتا ہے، اپریل سے مئی کے وسط تک یہاں آنے والے ان درختوں کا جوبن دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں جبکہ اس موسم میں یہاں وسٹیریا فیسٹول کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ ان مہینوں سے ہٹ کر آنے والے یہاں کا اصل رنگ دیکھنے سے محروم رہتے ہیں تاہم پھر بھی یہ غار اپنی خوبصورتی سے انہیں مسحور ضرور کردیتا ہے — بشکریہ وکی میڈیا کامنز


اورڈا غار


اورڈا نامی یہ غار دنیا میں سب سے بڑے زیرآب غاروں کا سلسلہ ہے جو روس میں موجود ہے پانچ کلومیٹر رقبے تک پھیلا ہوا ہے اور یہاں پانی اتنا شفاف ہوتا ہے کہ غوطہ خور یہاں آکر اپنے سے آگے 5 میٹر تک کا حصہ واضح طور پر دیکھ لیتے ہیں، سب سے اہم یہاں کوئی برقی رو بھی نہیں دوڑتی جو اس طرح کی غاروں میں جانے والوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔

تاہم یہ غار گم ہوجانے کے لیے کوئی اچھا مقام نہیں کیونکہ ایک جیسے راستے اور غاریں کسی کو بھی اپنی گہرائیوں میں گم کرسکتے ہیں جبکہ یہاں کا ٹمپریچر پانی میں جما دینے والا یعنی منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ کا ہوتا ہے، تاہم یہاں کی غاریں اتنی بڑی ہیں کہ اگر گاڑیاں یا بسیں بھی وہاں لے جائیں تو چلائی جاسکتی ہیں — وکی پیڈیا فوٹو


ویٹومو غار


ویٹومو غار نیوزی لینڈ میں واقع ہے جو جگنو کی نسل کے روشن کیڑوں کا گھر بھی سمجھا جاتا ہے، ان سے پھوٹنے والی روشنی اس جگہ کا نظارہ جادوئی بنا دیتی ہے جبکہ یہ کیڑے ریشم کی پیداور کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے نارتھ آئی لینڈ میں واقع یہ غاروں کا سلسلہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور اس کے اندر کشتی پر تیرتے ہوئے سفر کے دوران چھت پر ہزاروں کیڑوں کی مدھم روشنی کا منظر سفر کو یادگار بنا دیتا ہے — آن لائن فوٹو


پیورو پرنکسیا سیٹیرانین دریا


فلپائن کے علاقے پلاوان میں واقع اس دریا کے اندر پھیلے غاروں کے سلسلے کو 1971 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا، یہ آٹھ کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جس کے اندر سے دریا بہہ کر سمندر میں جا گرتا ہے، اس غار کے اندر جاکر دنیا میں چونے کے پتھروں کی فارمیشن کا سب سے خوبصورت نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے جن میں سے کچھ تو ایسے ڈھلے ہوئے ہیں کہ جانور، مشروم یہاں تک کہ انسانوں سے بھی مشابہہ ہیں۔

اس جگہ کو 2012 میں دنیا کے سات نئے عجوبوں میں بھی شامل کیا گیا تھا تاہم اس دریا کا صرف چار کلومیٹر حصہ ہی سیاحوں کے لیے قابل رسائی ہے اور اس سے آگے جانے کے لیے انہیں خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے — رائٹرز فوٹو


ماربل کیتھڈرل


ماربل کیتھڈرل نامی غار چلی کی جنرل کیریرا جھیل جو چلی ارجنٹائن سرحد کے درمیان ہے، کو دیکھنے کے لیے بہت مشکل اور لمبا سفر کرنا پڑتا ہے، چلی کے دارالحکومت سے کوئے ہیکے شہر تک طویل پرواز کے بعد 320 کلومیٹر کی ڈرائیو جھیل تک پہنچاتی ہے مگر اس عجوبہ غار کو دیکھنے کے لیے اس لمبے سفر کی تھکان اس وقت دور ہوجاتی ہے جب شیشے کی طرح شفاف پانی اور خوبصورت پیٹرون سے بنی سنگ مرمر کی دیواریں نظر آتی ہیں اور یہاں تک پہنچنا صرف کشتی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ غار کوئی چھ ہزار سال پہلے لہروں کے کیلشیئم کاربونیٹ سے ٹکرانے کے نتیجے میں تشکیل میں آیا، یہاں کے پانی کا رنگ بھی موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور سال کے مختلف مہینوں میں آپ رنگوں کی یہ کہکشاں دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں — اے پی فوٹو


لوبانگ ناسب باگوس


لوبانگ ناسب باگوس یا خوش قسمت غار اپنے ساراوک چیمبر کی بدولت شہرت رکھتا ہے جو دنیا میں کسی بھی غار کا سب سے بڑا چیمبر ہے، یہ بورینو کے گوننگ مولو نیشنل پارک میں واقع ہے، زمین سے چھت تک اس کی لمبائی سو میٹر ہے اور یہ اتنا بڑا چیمبر ہے کہ اس میں بیک وقت آٹھ جمبو جیٹ طیارے بھی آسانی سے آسکتے ہیں۔

اس غار کے تمام حصوں کی تشکیل پچاس لاکھ سال پہلے پانی کے دھاروں کی بدولت ہوئی تھی اور اس کی مشہور غاروں میں ونڈ غار، ہیپی نیس غار اور دیگر قابل ذکر ہیں — بشکریہ وکی میڈیا کامنز


کروبیرا غار


دنیا کی سب سے گہری غار کا اعزاز اپنے نام کرنے والی کروبیرا غار کی گہرائی کا تعین سائنسدانوں نے اکتوبر 2004 میں کیا اور وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ 2080 میٹر گہری ہے، یہ جارجیا سے وابستہ ایک خود مختار ریاست ابخازیا میں واقع ہے۔

اس غار کے سب سے نچلے حصے تک رسائی اب تک سائنسدانوں کی ٹیم کے ایک رکن کو ہی حاصل ہوسکی ہے جہاں موجود پانی برفانی درجہ حرارت کے ساتھ کسی کو بھی منجمد کرسکتا ہے اور وہ وہاں سیلابی دھارے کے باعث تیس گھنٹوں تک پھنسا رہا تھا، اتنی گہرائی میں بھی وہاں جانوروں کی کئی اقسام موجود ہیں جن میں ٹرانسپیرنٹ فش اور دیگر قابل ذکر ہیں — وکی پیڈیا فوٹو