نئے عہد کا ٹی وی: صلاحیت کو پیچھے پھینک دینے والا
کیا آپ رات گئے تک ٹیلیویژن دیکھتے ہیں؟ اس میں ہر جگہ خوش شکل افراد کی بھرمار ہے یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا؟
یہ تمام خوبصورت افراد ڈیزائنر ملبوسات پہنتے ہوئے ٹی وی پر عام پاکستانیوں کی ماڈلنگ کرتے ہیں اور اداکاری کی جہاں تک بات ہے وہ اس کی جزئیات میں نہیں جاتے۔
اگر آپ ٹیلیویژن باقاعدہ دیکھنے کے عادی نہیں تو ہوسکتا ہے کہ یہ دریافت آپ کو کچھ سخت محسوس ہو، ایسا نہیں کہ ٹی وی پر پہلے کبھی پرکشش افراد نظر نہیں آتے تھے مگر موجودہ عہد میں یہ لوگ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں کیونکہ اگر آپ ماضی میں جھانکا جائے تو وہاں خوبصورتی سے زیادہ اداکاری پر زیادہ توجہ نظر آتی تھی۔
اگر آپ گزشتہ پانچ برسوں میں نشر کیے جانے والے تمام ٹی وی شوز کے بارے میں غور کریں تو وہ کون ہوگا جسے آپ انتہائی باصلاحیت قرار دیں گے؟ شرط یہ ہے کہ آپ کسی ایسے فرد کا نام نہیں دیں گے جو انڈسٹری میں دس برسوں سے زائد عرصے سے ہو۔
"حمزہ علی عباسی" ہوسکتا ہے آپ اس نام کے ساتھ یہ احساس کیے بغیر چلائیں کہ میں انٹرنیٹ پر آپ کی صدا نہیں سن سکتا۔ ٹھیک ہے میں آپ کو حمزہ علی عباسی دیتا ہوں بلکہ میں حسن احمد کو بھی قبول کرلیتا ہوں (حسن کا "سردرد" ڈسپرین اشتہار دیکھیں اور آپ سمجھ جائیں گے کہ میرا مطلب کیا ہے) اس کے علاوہ دوسرا کون ہے؟
ایسا کون ہے جو آپ کے خیال میں ٹی وی پر مسلسل اپنی صلاحیتوں کو منوا لینے والی کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہے؟
ایسا نہیں کہ آج ہماری انڈسٹری کے پاس باصلاحیت افراد نہیں مسئلہ یہ ہے کہ یہ ٹیلنٹ سطحی کاسٹنگ کی وجہ سے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ پرانے اداکار، مصنفین اور ڈائریکٹرز ایک ایسے عہد سے تعلق رکھتے تھے جس کی ترجیحات مختلف تھیں اور ان کے کام کی روشنی اب بھی جگمگا رہی ہے۔
ٹھیک بات تو یہ ہے کہ دل چرا لینے والی کارکردگی دکھانے کے حوالے سے تسلسل کی کمی صرف اداکاروں تک محدود نہیں مگر ہم یہ الزام انہیں اس لیے دیتے ہیں کیونکہ ہم انہیں سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔ یہاں ایسے ڈائریکٹرز بھی ہیں جو اپنے اسکرپٹس سے انصاف نہیں کرتے اور ایسے مصنفین کی بھی کمی نہیں جو مربوط کرداروں کو تحریر نہیں کرپاتے۔
اس کی وجوہات ہم ایک جملے میں دریافت کرسکتے ہیں آگے دیئے جانے والوں کے ناموں کا موازنہ موجودہ عہد کے لوگوں سے کریں۔ جیسے حسینہ معین کے لکھے کلاسیک "دھوپ کنارے" کا موازنہ حال کہ "شاید کے بہار آئے" سے کریں۔ پہلے ہمارے پاس ہمشہ تسلسل کے ساتھ کام کرنے والے انور مقصود تھے جو حساس موضوعات کو حیرت انگیز طنزیہ انداز میں پیش کرتے تھے۔ ہم نے مرینہ خان، راحت کاظمی، شہناز شیخ، شکیل وغیرہ کی دلوں کو چھولینے والی اداکاری دیکھی ہے یہاں تک کہ آج بھی کئی بار مرحوم معین اختر کا ٹی وی پر محض آدھے گھنٹے کا شو ہر ایک کے حواس پر چھا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ فیصل قریشی نے بھی "بشر مومن" میں اپنے کردار کو بہترین انداز میں پیش کرنے کے لیے وقت لیا، ثانیہ سعید حقیقی کرداروں کو پیش کرتی ہیں اور وہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ "پیارے افضل" کی پوری کاسٹ کا موازنہ اس میں موجود فردوس جمال اور صبا حمید سے کریں اور آپ کام کے معیار میں واضح فرق کو دیکھ سکیں گے۔
ڈرامہ "تیسرا کنارہ" معروف مصنف آئن رینڈ کے ناول فاﺅنٹین ہیڈ سے متاثر ہوکر بنایا گیا یہ راحت اور ساحرہ کاظمی کے پراجیکٹس کی تھیمز کا تسلسل تھا جو کہ موجودہ ڈراموں سے بالکل ہٹ کر ہے جس میں ایسا بھی ایک بار ہوچکا ہے کہ ایک خاتون کو روتے دیکھ کر مصنف نے اس کے اوپر ڈرامہ "ہمسفر" تحریر کردیا۔
ان سب امور کا سراغ ماضی میں جاکر لگایا جاسکتا ہے جب پی ٹی وی میں کام کے لیے لوگوں کو مناسب کوالیفکیشن کی ضرورت ہوتی تھی، وہاں کورسز اور سرٹیفکیٹس کی ضرورت پڑتی تھی جس کے بعد ہی کسی کے ہاتھ میں کوئی شو دیا جاتا تھا۔ اس معیار کو ضیا دور میں نرم کردیا گیا (ہاں بدقسمتی سے ہمیں ایک سیکنڈ کے لیے اس دور میں جانا پڑا)۔
اس کے بعد اس عمل میں انڈر کوالیفائیڈ افراد شامل ہوگئے اور اس وقت سے ہم اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
مزید یہ کہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں ٹی وی اور ہماری فلمی صنعت کے مقابلے میں پیسہ بہت زیادہ ہے اسی وجہ سے وہ ایسی صلاحیت کو فروغ نہیں دے سکی جو متاثرکن ہوتا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اشتہارات کا رخ کرنے لگے۔
اشتہارات ایک سطحی صنعت ہے مثال کے طور پر ہم کوئی صابن اس لیے نہیں خریدتے کیونکہ ایک باصلاحیت اداکار نے ہمیں قائل کرلیا ہے بلکہ ہم اس لیے بازار کا رخ کرتے ہیں کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایسے پرکشش افراد جیسے نظر آسکتے ہیں جو مذکورہ بالا صابن استعمال کرتے ہیں۔
اگر آپ ایک پراجیکٹ شروع کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کسی ایسے فرد کو لینے کا سوچیں گے جس کی پہلے سے کوئی چیز شائع ہوچکی ہو یا کسی ایسے فرد کا انتخاب کریں گے جو باصلاحیت نظر آتا ہوگا؟ میں تو پہلے فرد کی جانب جاﺅں گا۔ اسی طرح اردو ڈائجسٹوں سے ابھرنے والے مصنفین جہاں المیہ کہانیاں گرم موضوع ہوتی ہیں اور کوئی بھی دولت مند شخص ایک پروڈیوسر بن سکتا ہے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ ٹی وی پروڈکشن کی ان تینوں کیٹیگریز میں تجربہ بہت اہمیت رکھتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ نئے لوگ پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آج باصلاحیت افراد موجود نہیں یہاں کچھ حیرت انگیز ڈائریکشن ٹیلنٹ رکھنے والے افراد بھی ہیں جیسے جواد شریف (اسلام آباد)، اداکاری کی صلاحیت رکھنے والے شاہ فہد (لاہور) اور متعدد باصلاحیت مصنفین بھی ہیں۔ میں خود نہیں جانتا کہ کہاں سے آغاز کروں مگر ان کا کام اوپر دیئے گئے معیار یعنی ٹی وی پر خوبصورت لوگوں کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پروفیشنل ماڈلز اس وقت زرق برق ملبوسات میں ہوتے ہیں جب وہ میک اپ کے ساتھ ماہانہ راشن لینے کی قطاروں میں لگے افراد کے کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ ان کی بطور ماڈل ساکھ انہیں تحفظ دیتی ہے۔ مصنفین ابھی تک اردو ڈائجسٹ کی جڑوں سے باہر نہیں نکل سکے کیونکہ وہ ایک ڈرامے کے لیے اپنے پرستاروں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے سے گھبراتے ہیں۔
بدقسمتی سے ان سب وجوہات کی بناء پر ان مسائل کا کوئی ایک حل نہیں نکالا جاسکتا۔
کچھ معاملات میں یہ بجٹ کا مسئلہ ہوتا ہے اور دیگر معاملات میں مارکیٹنگ مسائل (غلط ناظرین، غلط وقت، غلط چینل)۔
کئی بار اس تصور کے ساتھ بھی کام کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی ٹی وی پُرکشش افراد سے بھرا ہوا ہے جو باصلاحیت بھی ہیں، تو ہمیں ابھی کشش پر سرمایہ لگانا چاہئے اور صلاحیت کے لیے انتظار کرنا چاہئے۔
توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ چھوٹی رکاوٹیں باصلاحیت اداکاروں کی واپسی میں حائل نہیں ہوگی کیونکہ ایک بار جب ہماری باصلاحیت فصل ختم ہوجائے گی تو ہم غیر صلاحیت یافتہ افراد کے غیر محفوظ ہاتھوں میں چلے جائیں گے جو کہ ایک بہت خوفزدہ کردینے والا خیال ہے۔