پاکستان کی جدید ترین فارنزک لیبارٹری

پاکستان: جرائم کی تحقیقات کیلئے جدید ترین طریقے کا استعمال

کرائم سین انویسٹی گیشن یونٹس کا ایک رکن ایک گھر سے فنگر پرنٹس اکھٹے کررہا ہے — رائٹرز فوٹو
کرائم سین انویسٹی گیشن یونٹس کا ایک رکن ایک گھر سے فنگر پرنٹس اکھٹے کررہا ہے — رائٹرز فوٹو

لاہور : امریکا کے ممتاز فارنزک سائنسدان محمد طاہرنے ایسے شواہد دریافت کیے جن سے باکسر مائیک ٹائسن کو جنسی زیادتی کے جرم میں جیل بھیجنے، سیریل کلر جون وائن گیسی کو گرفتار کرنے اور ڈاکٹر سام شیپرڈ کو بیوی کے قتل کے الزام سے بری کرنے میں مدد ملی۔

محمد طاہر پنجاب فارنزک لیبارٹری کے ڈائریکٹر جنرل— رائٹرز فوٹو
محمد طاہر پنجاب فارنزک لیبارٹری کے ڈائریکٹر جنرل— رائٹرز فوٹو

اورپھر محمد طاہر کو سب سے مشکل اسائنمنٹ کا سامنا کرنا پڑا یعنی اپنی صلاحیتوں کو پاکستان میں آزمانا جہاں کی اٹھارہ کروڑ آبادی جرائم اور عسکریت پسندی کا سامنا ہے۔

مگر مجرموں کو پکڑنا محمد طاہر کے لیے بڑا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا تاریخی فوجداری نظام انصاف بڑی رکاوٹ سمجھا جاسکتا ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

شواہد کو پیش کرنے کا تصور پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اپنایا جانے والا نیا تصور ہے۔

مقدمات کا اکثر انحصار عینی شاہدین پر ہوتا ہے جنھیں باآسانی خریدا یا ڈرا دھمکا کر بیان بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور قتل کے ملزمان عام طور پر آزاد ہوجاتے ہیں۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

تو محمد طاہر، نرم لہجے والے ایسے شخص جن کا شوق مطالعہ اور باغبانی ہے، ایک جستجو کے ساتھ آئے ہیں کہ فارنزک سائنس کو فروغ دیا جائے۔

65 سالہ محمد طاہر بتاتے ہیں " ٹھوس شواہد جھوٹ نہیں بولتے وہ انسانوں کی طرح جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے، یہ خاموش گواہ ہوتے ہیں جنھیں ہمارے عدالتوں میں بولنے پر مجبور کرتے ہیں"۔

محمد طاہر پاکستان اور امریکا دونوں ممالک کے شہری ہیں اور ان کی امریکا میں اپنی فارنزک لیبارٹری بھی ہے اور انہوں نے امریکی پولیس کے ساتھ 36 سال تک کام کیا اور ایف بی آئی کو فارنزک سائنس پر ہینڈ بک لکھنے میں مدد فراہم کی۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

سال 2008 کے بعد جب پاکستان میں عسکریت پسند حملے بڑھنے لگے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ نے محمد طاہر سے رابطہ کیا اور مدد کی درخواست کی تاکہ لاہور شہر میں 31 ملین ڈالرز کی لاگت سے ایک فارنزک لیبارٹری کو ڈیزائن کیا جاسکے، اس کے لیے سائنسدانوں کا انتخاب کرنے کے ساتھ جرائم کو حل کرنے کے لیے نئے معیارات کو نافذ کیا جائے۔

اس لیبارٹری کی تکمیل 2012 میں ہوئی اور ابتداءمیں یہاں کام کی رفتار سست تھی مگر محمد طاہر بتاتے ہیں کہ اب اس لیب میں روزانہ چھ سو کیسز کو لیا جارہا ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

وہ بتاتے ہیں کہ اگر پولیس کی جانب سے شواہد یا مشتبہ افراد کو بھیجا جائے تو اس سے دوگنا زیادہ تعداد کو بھی آسانی سے نمٹایا جاسکتا ہے " پولیس تعلیم یافتہ نہیں وہ ہماری اہلیت سے واقف نہیں ہم انہیں اس شعبے کی تعلیم دے رہے ہیں"۔

پولیس سے درپیش مسائل

یہ چمکتی دمکتی نئی لیبارٹری کو بہت جلد ہی معلوم ہوگیا کہ پولیس کے بہت کم اہلکار ہی جانتے ہیں کہ کس طرح جرائم کے مناظر کو محفوظ کرنا چاہئے اور شواہد اکھٹے کیے جانے چاہئے۔

ڈی ای اے نمونوں کو پولیس کی جانب سے فضول سمجھا جاتا ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

تجزئیے کے لیے آنے والی گنیں اہلکاروں کے فنگرپرنٹس سے بھری ہوتی ہیں اور لیب کے ایک سائنسدان نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا " اگر کچرا آئے گا تو کچرا ہی باہر نکلے گا"۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اس ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے محمد طاہر نے کرائم سین انویسٹی گیشن یونٹس تشکیل دیئے اور پولیس کو تربیت دینا شروع کی اور اب ڈی این اے ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ انہیں موصول ہونے والے پچاس فیصد کے لگ بھگ نمونے درست طریقے سے پیک ہوتے ہیں۔

طاہر بتاتے ہیں " اب حالات میں بہتری آرہی ہے"۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اب تک ایک لاکھ 85 ہزار نفری میں سے 3100 پولیس اہلکاروں کو تربیت دی جاچکی ہے مگر پیشرفت کافی سست روی کا شکار ہے اور پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل مشتاق سکھیرا کہتے ہیں کہ پولیس اب بھی " بہت کم" کرائم سینز کو محفوظ کرپاتی ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

عدالتی نظام سے منسلک ایک عہدیدار کے مطابق درجنوں مقدمات میں مشتبہ افراد کی بجائے اہلکاروں کو اپنے ہی فنگرپرنٹس کرائم سنز پر ملتے ہیں۔

کچھ پولیس اہلکار نظام سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک پراسیکیوٹر اور ایک سائنسدان نے رائٹرز کو بتایا کہ کئی بار پولیس کی جانب سے مشتبہ ملزم کی گن اور کرائم سین پر ملنے والی گولیوں کو پلانٹ کردیتے ہیں۔

عدالتیں عام طور پر پولیس کو ناقابل اعتبار سمجھتی ہیں اور کسی ملزم کے اعتراف جرم کو قانونی طور پر قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ مشتبہ افراد کو اکثر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پولیس پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ کتابی شواہد کے معاملے میں بہتر بنے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

مشتاق سکھیرا بتاتے ہیں " آپ کہہ سکتے ہیں کہ فارنزک سائنس کسی ملزم تک پہنچنے کا فوری طریقہ ہے"۔

محمد طاہر نے پولیس اہلکاروں کی لیبارٹری آمد پر پابندی عائد کررکھی ہے تاکہ ان کے طریقہ کار میں مداخلت نہ ہونے کو یقینی بنایا جاسکے اور جب رائٹرز کے رپورٹرز نے لیبارٹری کا دورہ کیا تو وہاں اہلکار بیسمنٹ میں بے تابی سے بیٹھے انتظار کررہے تھے جبکہ کچھ سفید پیکجز کو سرخ سیل اور رسیوں سے سیل کررہے تھے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

عدالتی بحران

لیب جب ایک رپورٹ تیار کرلیتی ہے تو اسے پراسیکیوٹر کو بھیج دیا جاتا ہے مگر ججز، وکلاءاور گواہ کو اکثر دھمکیاں یا قتل کردیا جاتا ہے، جبکہ عدالتوں میں دس لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتواءہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا جرائم پر سزا کی شرح بہت کم ہے، انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ایک تہائی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں مگر اپیل کے بعد پچاس فیصد فیصلے بدل دیئے گئے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

ایک چوتھائی سے بھی کم قتل کے ملزمان کو سزا دی جاتی ہے مگر محمد طاہر کا کہنا ہے کہ ان کی لیب نے کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اپنی اسکاٹش بیوی کو زہر دینے والے ایک شخص نے اعتراف جرم کیا جس کی وجہ ٹوکسکولوجی اور پولی گراف ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے شواہد فراہم کرنا تھا۔

دو افراد نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے خودکش جیکٹیں ان کے سر تھوپی ہیں مگر لیباری کے کمپیوٹر سیکشن نے ان کے موبائل فونز سے ایسی ڈیلیٹ ویڈیوز کو ڈھونڈن نکالا جس نے ان کے جرم کو ثابت کردیا۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اسی طرح ایک فرد نے ایک پانچ سالہ بچے کو ایک مسجد میں زیادتی کے بعد قتل کردیا اور اس کی شناخت ڈی این اے سے ہوئی جبکہ دیگر سات مشتبہ افراد کو رہا کردیا گیا۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

محمد طاہر بتاتے ہیں " ایک طرف آپ ایک شخص کو جرم کے الزام سے نجات دلاتے ہیں اور دوسری جانب آپ ایسے فرد کو تلاش کرتے ہیں جس نے درحقیقت جرم کیا ہوتا ہے، اس سے زیادہ کوئی چیز آپ کو خوش نہیں کرسکتی"۔