شمالی وزیرستان سے افغانستان جانے والوں کے لیے نئے خطرات

شمالی وزیرستان سے افغانستان جانے والوں کے لیے نئے خطرات


گلان کیمپ میں مقیم پاکستانی پناہ گزین— اے پی فوٹو
گلان کیمپ میں مقیم پاکستانی پناہ گزین— اے پی فوٹو

عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوج کے آپریشن کے بعد سرحد عبور کرکے جانے والے ہزاروں پاکستانی افغانستان کے ایک خطرناک خطے میں واقع پناہ گزین کیمپ میں پناہ لینے کے خواہشمند ہیں۔

دہائیوں سے افغان شہری خانہ جنگی سے پریشان ہوکر پاکستان کا رخ کرتے رہے ہیں مگر حالیہ مہینوں میں اس رجحان میں تبدیلی دیکھنے مین آئی اور لگ بھگ ساٹھ ہزار پاکستانی جن میں اکثریت بچوں کی ہے، صوبہ خوست کی سرحد سے بیس کلو میٹر اندر واقع گلان کیمپ میں پناہ لے چکے ہیں۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی بزرگ ملک عمردین کا کہنا ہے " ہم جانتے ہیں کہ ایک بار جب فوجی آپریشنز شروع ہوجائیں تو وہ کافی لمبے عرصے تک چلتے ہیں، یہ پہاڑی علاقہ ہے اور عسکریت پسند اپنے خطے میں کافی مضبوط ہیں تو حکومت کو طالبان کو تلاش کرکے ختم کرنے میں کافی مشکل وقت کا سامنا ہوگا"۔

گزشتہ سال جون میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد سے دو لاکھ دس ہزار سے زائد پاکستانی شمالی وزیرستان سے افغانستان منتقل ہوچکے ہیں۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

مشرقی افغانستان پناہ لینے کے لیے ایک مشکل مقام ہے کیونکہ خوست اور پڑوسی صوبہ پکتیکا افغانستان کے خطرناک ترین صوبوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں اور بیشتر پاکستانی پناہ گزین وہیں پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

مقامی سیکیورٹی فورسز کو ناٹو اور امریکی فورسز کے انخلاءکے پیش نظر طالبان سے مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور عسکریت پسندوں کی جانب سے موسم گرما میں حملوں کی نئی لہر شروع کیے جانے کا خدشہ ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

گلان کیمپ کے آغاز میں اقوام متحدہ کی زردی مائل نیلی یونیفارم پہنے افراد بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کررہے ہیں جو کہ یہاں دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں دبا دی گئی ہیں۔

تاہم کیمپ کے اندر مقامی تاجرون نے اسٹال لگا کر تازہ مصنوعات کی فروخت شروع کررکھی ہے جس نے کیمپ کی فضاءمیں استحکام پیدا کیا ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

پاکستانی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی افغان شہریوں کی جانب سے خوش آمدید کہا گیا کیونکہ ان میں سے بیشتر وہی لوگ تھے جو ماضی میں سرحد کی دوسری جانب پناہ حاصل کرچکے ہیں۔

کراچی کے انٹرنیشل ائیرپورٹ پر حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جانب سے بڑے آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا اور حکومت نے مقامی شہریوں کو وہاں سے انخلاءکی ہدایت کی تھی، افغانستان سے ہٹ کر بھی ملک کے اندر ساڑھے سات لاکھ افراد اس آپریشن کے بعد بے گھر ہوئے۔

اسی طرح خیبرایجنسی میں بھی شمالی وزیرستان سے فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا۔

میران شاہ سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی بزرگ شیر آزیہ (Shir Azia) نے بتایا " طالبان رات کے وقت آکر شاہراﺅں پر بم نصب کردیتے جن کے پھٹنے سے فوجیوں کے ساتھ ساتھ مقامی افراد بھی ہلاک ہوتے، تو پھر حکومت یہاں آئی اور اس نے جوابی کارروائی کی"۔

انہوں نے کہا " ہمیں حکومت یا طالبان کے کنٹرول کی پروا نہیں ہم تو بس اپنی زندگی امن سے جینا چاہتے ہیں، اس لڑائی کے نتیجے میں ہم اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں"۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

اس کیمپ میں مقیم افراد کی امداد کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے صوبئیا انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے تاکہ انہیں پناہ، خوراک، پانی، طبی سہولیات اور تعلیم وغیرہ فراہم کی جاسکے۔

حالیہ دنوں میں بڑی تعداد میں خاندانوں کی آمد ہوئی ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے کیونکہ مرد کسی اور جگہ کام کی تلاش کررہے ہیں۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ڈائریکٹر بو شکاک (Bo Schack) کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں کہ ان پناہ گزینوں کی آمد کی رفتار میں جلد کمی آسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چالیس ہزار سے زائد خاندانوں نے پاکستان سے افغانستان کا رخ کیا ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

گلان کیمپ کے باسیوں میں بچوں کی تعداد 58 فیصد کے قریب ہے اور خدشات ہے کہ عسکریت پسند بے گھر افراد کی اس آمدورفت کو سرحد کے دونوں جانب آنے جانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔

بو شکاک کہتے ہین " ہمارا مستحکم عزم ہے کہ ہمیں عام شہریوں کی مدد کرنا ہے"۔

تاہم ایک مغربی سفارتکار نے نام چھپانے کی شرط پر کہا " یہ ناگزیر اور اس سے بچا نہیں جاسکتا کہ عسکریت پسند بھی اس سمت سے آسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں افغان انتظامیہ کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں"۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

یہ کیمپ ہتھیاروں اور بکتربند گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے کیونکہ افغان پولیس امن برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پانی کے ٹرکوں اور رجسٹریشن ڈیکس پر قطاریں معمول کے مطابق چلیں۔

حال ہی میں بارودی سرنگوں سے صاف کیے گئے علاقے میں کلاس رومز کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں بچے انگریزی سیکھتے ہیں۔

کلاس روم سے باہر حال ہی میں آنے والے تین سے دس سال کی عمر کے بچے پرجوش انداز میں اپنی کلاسز کے آغاز کا انتظار کررہے ہیں۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

سادہ لباس میں پولیس کا ایک اہلکار اپنے کندھے میں خودکار رائفل کے ساتھ گشت کررہا تھا۔

دس سالہ حیات اللہ خان نے بتایا کہ وہ دو ماہ قبل اپنے والدین اور چار بھائیوں کے ساتھ گلان کیمپ پہنچا تھا۔

وہ اپنی کھلونا کار کو بہت یاد کرتا ہے جسے وہ گھر پر چھوڑنے پر مجبور ہوگیا تھا " ہم یہاں خوش نہیں، ہم اپنے گھر واپس جانا چاہتے ہیں، ہم اپنے پیچھے اپنے مدارس اور اسکول چھوڑ آئے ہیں اور یہاں ہم خالی ہاتھ آئے"۔