چین کی نئی شاہراہِ ریشم: پاکستان کا فائدہ کتنا؟

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2015
گوادر 1958 میں پاکستان کو فروخت کیے جانے سے پہلے عمان کا حصہ تھا یہ صوبہ بلوچستان کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ — اے ایف پی
گوادر 1958 میں پاکستان کو فروخت کیے جانے سے پہلے عمان کا حصہ تھا یہ صوبہ بلوچستان کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ — اے ایف پی

کیا پاکستان کی بندرگاہ اور انفرا اسٹرکچر میں چین کی سرمایہ کاری جنوبی ایشیائی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہے؟ اس ماہ چینی صدر ژی جِن پنگ کے پاکستان کے متوقع دورے نے ایک پر امید احساس کو جنم دیا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر میں صدر ژی کا دورہ اسلام آباد میں حکومت مخالف طویل مظاہروں کے باعث ملتوی کیا گیا تھا اور اس وقت پاکستان کی حکومت بھی کسی طرح کی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔

توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے بڑے معاہدوں پر دستخط کرنے کے ساتھ ساتھ چینی صدر بلوچستان کی گوادر پورٹ، جو 3000 کلومیٹر طویل اسٹریٹجک پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کا حصہ ہے، کا افتتاح بھی کریں گے جو کہ علاقائی تجارت، ترقی، اور سیاست کے زاویوں کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے۔

گوادر 1958 میں پاکستان کو فروخت کیے جانے سے پہلے عمان کا حصہ تھا یہ صوبہ بلوچستان کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ آبنائے ہرمز کے قریب خلیجِ فارس میں موجود ہے، جہاں سے دنیا کے تیل کا 40 فیصد حصہ گزرتا ہے۔

2013 میں گوادر کے گہرے سمندر میں اربوں ڈالر کی اس بندرگاہ کی تعمیر اور اسے چلانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دیا گیا تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ بندرگاہ بحرِ ہند میں چین کا بحری اڈہ بن سکتی ہے، اور بیجنگ کو بھارتی اور امریکی بحریہ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے قابل کر دے گی۔

مئی 2013 میں پاکستان کے دورے کے دوران چینی وزیر اعظم لی چی چیانگ نے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔ لی نے اس وقت کہا تھا کہ ہمیں دونوں اطراف کے رابطوں، توانائی کی ترویج اور بجلی کی پیداوار کے ترجیحی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔

— گرافک بشکریہ SCMP
— گرافک بشکریہ SCMP

توانائی کے شعبے کے ماہر اور ماحولیاتی مشاورتی فرم ہیگلر بیلی پاکستان کے مینیجنگ ڈائریکٹر وقار ذکریا کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے مضبوط سیاسی تعلقات ہونے کے باعث یہ قدم کامیاب ہوسکتا ہے۔ جبکہ دیگر خطوں کے توانائی کے منصوبے عدم تحفظ کے مسائل اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے ختم ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن رکی ہوئی ہے۔ عالمی بینک کے تعاون سے زیرِ تکمیل سینٹرل ایشیا ساؤتھ ایشیا الیکٹرسٹی ٹرانسمیشن اینڈ ٹریڈ پروجیکٹ کو افغانستان سے گزارنے کے لیے سلامتی کے خدشات کا سامنا ہے، جبکہ بھارت سے بجلی کی درآمد کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسائل کے حل ہونے کا انتظار ہے۔

توانائی کی قلت میں مبتلا پاکستان کو یقینی طور پر چین کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا ہے، جس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان تاریک گھڑیوں میں (ملک کے کئی حصے ایک دن میں اٹھارہ گھنٹے تک بجلی کی کمی سے تکلیف اٹھاتے ہیں) ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستانی صدر گہرے جذبات کے زیر اثر تھے کہ انہوں نے پیش گوئی کر ڈالی کہ اقتصادی راہداری اس "صدی کی اہم ترین تعمیر" ہوگی اور اس سے خطے میں اربوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔

ذکریا کو یقین ہے کہ CPEC کے تحت چلنے والا منصوبہ پاکستان میں توانائی کی قلت کو پورا کردے گا اور طویل مدت میں بجلی کی پیداوار اور ترسیل دونوں میں واضح فرق لائے گا۔ تاہم مغربی عطیہ دہندگان سے توانائی کے منصوبوں کے لیے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے، پیسوں کی تنگی کا شکار پاکستان کے لیے کوئلہ خاص اہمیت رکھتا ہے، جبکہ چینی سرمایہ بروقت اور مفید ہے۔

CPEC کے منصوبے میں پاکستان کے جنوب مغرب میں گوادر کی بندرگاہ کو چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں کاشغر سے ملانے کے لیے ایک 1800 کلومیٹر طویل ریلوے لائن، تیل کی پائپ لائنوں کا جال، اور نئی سڑکوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔

اس منصوبے میں بندرگاہ پر ایک ہوائی اڈے کی تعمیر، توانائی کے منصوبوں کی ایک قطار، خصوصی اقتصادی زونز، خشک بندرگاہیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں۔ متوقع تخمینہ لگائی گئی قیمت 75 ارب امریکی ڈالر ہے جن میں سے 45 ارب امریکی ڈالر 2020 تک راہداری کویقینی طور پر قابل استعمال بنانے کے ضامن ہوں گے۔ باقی سرمایہ کاری بجلی پیدا کرنے اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر خرچ کی جائے گی۔

چین کی نئی شاہراہِ ریشم

اقتصادی اور توانائی کی راہداری پاکستان کے لیے 'زبردست اہمیت کی حامل' ہو سکتی ہے، جبکہ چین کے لیے یہ بہت سے طویل المدتی اقدامات میں سے صرف ایک ہے، جو کہ ملک کی عالمی اقتصادی طاقت میں اضافہ کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔

ایک بہت زیادہ پرشکوہ منصوبہ نئی شاہراہِ ریشم ہے جو کہ وسط ایشیا کے ذریعے چین کو یورپ سے ملائے گا۔ اور بحری شاہراہِ ریشم بحر ہند اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کی جہاز رانی کے راستے یقینی طورپر محفوظ بنائے گا۔

— گرافک بشکریہ WSJ
— گرافک بشکریہ WSJ

واشنگٹن ڈی سی کے ووڈ رو ولسن سینٹر کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ چین راہداری کی تعمیر پاکستان کے لیے خیرات یا مدد کے طور پر نہیں کر رہا ہے۔ چاہے سڑکوں کی بات ہو یا بندرگاہوں کی، چین ہر طرح کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خوشی سے سرمایہ فراہم کرے گا جو کہ اس کے مقصد میں کارآمد ہوگا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے دنیا کے معاشی طور پر کم اہم علاقوں میں سے ایک جنوبی ایشیا میں زیادہ اتحاد پیدا ہوگا۔ پارڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز بوسٹن یونیورسٹی کے ڈین عادل نجم کو یقین ہے کہ جو بھی چیز خطے کو جوڑ کر رکھے وہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ ممالک انضمام کے فوائد کو تسلیم کرنے کے بجائے تنہا زمینی اسٹریجک کیفیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

بھارت اور امریکہ کی پریشانی

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ نئے شاہراہِ ریشم بیک وقت بھارت اور چین کے درمیان جاری مقابلے کو تیز کر دیں گے، جبکہ کچھ حد تک چین اور امریکہ کے درمیان وسیع تر سنٹرل ایشیاء کے خطے میں سرمایہ کاری کرنے اور اثرو رسوخ پیدا کرنے کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت طویل عرصے سے وسطی ایشیا اور افغانستان میں توانائی کے اثاثوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے جبکہ حالیہ برسوں میں ان میں سے بہت سے چین ہڑپ کرچکا ہے۔ امریکہ وسیع تر خطے میں اپنے شاہراہِ ریشم منصوبوں کا اعلان کرچکا ہے۔

بھارت پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے، خاص طور پر چین کے نئے ایٹمی ری ایکٹروں کو سرمایہ فراہم کرنے کے فیصلے سے فکر مند ہے۔ پاکستان 2023 تک چین کے مالی تعاون سے چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور آنے والے وقت میں مزید چار نئے جوہری پلانٹس کا اضافہ کیا جائے گا۔ (جس سے 2030 تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بڑھ کر 7,930 میگاواٹ ہوجائے گی)۔

بہت سے لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ چین نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے کیونکہ پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس کے جواب میں چین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ یہ منصوبے 2004 میں اس کے این ایس جی کے رکن بننے سے پہلے طے ہوچکے تھے۔

بلوچستان کا تنازع

بہرحال اقتصادی راہداری کا گوادر میں اس وقت تک کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے جب تک یہاں امن نہ قائم ہوجائے۔ یہ ضلع عسکریت پسند تنظیموں، جیسے بلوچستان لبریشن فرنٹ، کے تنازعات میں الجھا ہوا ہے۔ یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو انتہائی مشکوک سمجھتے ہیں۔ یہ گروہ نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، بلکہ بندرگاہ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں پر حملے بھی کرتے رہے ہیں۔

ماہرین مقامی قانون سازوں کو راہداری کا زیادہ تر حصہ ملک کے دونوں انتشار زدہ علاقوں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ہٹا کر براستہ پنجاب کرنے کے لیے یہی وجوہات پیش کر رہے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ چین اپنے صوبے سنکیانگ، جس میں اوئیغور مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں، میں پاکستانی مذہبی انتہا پسند گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے۔

اب پاکستانی فوج نے 12،000 سیکورٹی اہلکاروں کو تربیت دینے کا منصوبہ بنایا ہے اور اقتصادی راہداری پر کام کرنے والے چینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک "خصوصی ڈویژن" تشکیل دیا ہے۔ پاکستان بھر میں 210 منصوبوں پر کام کرنے والے 8100 سے زائد چینیوں کی حفاظت کے لیے 8000 سیکیورٹی اہلکاروں کو پہلے ہی تعینات کیا جا چکا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khurram Aziz Apr 19, 2015 08:07pm
بہتر یہی رہے گا کہ بلوچستان میں امن قا‏ئم کیا جائے اور راہداری وہیں سے گزاری جائے تاکہ پسماندہ علاقوں کی ابدی ترقی کا باب کھل سکے۔
محمد ارشد قریشی (ارشی) Apr 19, 2015 09:12pm
بیت اہم راہداری ہے جس کی تعمیر میں پاک چین کارکنان نے اپنی جانوں نے نذرانے دیئے ہیں چینی صدر جناب شی چن پنگ کی کاوشوں سے ون بیلٹ ون روڈ پالیسی اور اس ضمن میں منعقدہ کانفرنس میں 60 ممالک کا اس سرگرمی میں حصہ لینے کا اعلان خوش آئندہ ہے اس کے ایشیاء میں بہت دور رس نتائج آئیں گے۔