کیا پاکستان عالمی کرکٹ کی واپسی کیلئے تیار؟

کیا پاکستان عالمی کرکٹ کی واپسی کیلئے تیار؟

کراچی: سنسان میدان، محروم شائقین اور کھیل کا گرتا معیار۔ یہ وہ نقصان ہے جوپاکستان چھ سالوں سے انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی نہ کرنے کی وجہ سے برداشت کر رہا ہے۔

تاہم، اگلے مہینے زمبابوے کے متوقع دورے سے امید کی ایک کرن ضرور پھوٹی ہے۔

تین مارچ، 2009 کو مہمان سری لنکن ٹیم پر لاہور کے قذافی سٹیڈیم کے قریب دہشت گردوں کے حملے سے پاکستان کرکٹ کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک جبکہ سات سری لنکن کھلاڑی زخمی ہوئے تھے۔

اس افسوس ناک واقعہ کے بعددہشت گردی جیسے ناسور سے نبرد آزما پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو گئی۔

کوئی بھی عالمی ٹیم پاکستان کےدورہ کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوئی تو پاکستان نے 2009 میں متحدہ عرب امارات کو اپنا کرکٹ کا گھر بنا لیا۔

گزشتہ سال جون سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد پاکستان میں سیکورٹی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔

پیر کو زمبابوے کی جانب سے اگلے مہینے مختصر دورے کی ہامی بھرنے کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی کی امیدیں جاگ گئی ہیں۔

یہ خبر بنگلہ دیش کے ہاتھوں ون ڈے سیریز اور ٹی ٹوئنٹی میچ میں شکست سے مایوس پاکستانی مداحوں کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔

زمبابوے کا ایک ہفتے پر مشتمل دورہ لاہور تک محدود رہنے کا امکان ہے ، لیکن ایک ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کی پاکستان آمد سے سرحدوں کے باہر ایک اہم پیغام جائے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ شہریار خان اپنی پس پردہ کوششیں کامیاب ہوتی دیکھ کر بہت پرجوش نظر آتے ہیں۔

زمبابوے کے علاوہ آسٹریلیا کی آرمی ٹیم بھی ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے جس سے پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے کلں سکتے ہیں۔

دوسری مرتبہ بورڈ کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والے شہریار سابق سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ تجربہ بہت کام آ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے پیش رو کے برعکس قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔

' ہمارا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اقدامات اٹھائے جائیں جن کے کامیاب ہونے کا امکان ہے'۔

ذہنی دباؤ لیکن زمبابوے کی ٹیم ابھی تو آئی نہیں اور پچھلے سالوں میں جھانک کر دیکھیں تو مقامی میدانوں کو عالمی کرکٹ سے سجانے کی چھوٹی سے چھوٹی کوشش بھی آخری وقت میں کسی رکاوٹ کا شکا ر ہو گئی۔

جیسے کہ 2012 میں بنگلہ دیش دورے کی ہامی بھرنے کے باوجود دو مرتبہ مکر گئی۔ دونوں موقعوں پر بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان کو غیر محفوظ قرار دیا تھا۔

ان سب باتوں کا مطلب یہ ہو ا کہ پاکستانی مداح ہی ایکشن سے محروم نہیں ہوئے بلکہ نوجوان کھلاڑیوں کو مانوس کنڈیشنز میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا۔

نئے پاکستانی کھلاڑیوں مثلاً ون ڈے کپتان اظہر علی اور فاسٹ باؤلر جنید خان اور راحت علی نے کبھی بھی گھر پر عالمی کرکٹ کا مزا نہیں چکھا۔

ہیڈ کوچ وقار یونس نے حال میں اے ایف پی سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پاکستان کا کرکٹ مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

'پاکستان میں عالمی کرکٹ نہ ہونے سے بہت نقصان پہنچا۔ اگر اگلے دو سالوں میں عالمی کرکٹ بحال نہ ہوئی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ملک میں یہ کھیل مر ہی نہ جائے'۔

پی سی بی سربراہ شہریار کے مطابق گھر میں کرکٹ کھیلنے کا کچھ متبادل نہیں۔'سٹیڈیم میں موجود تماشائیوں اور پلیئرز کے درمیان کیمسٹری ایک ایسے ماحول کو جنم دیتی ہے جس کا کوئی نعمل البدل نہیں'۔

دیگر ممالک کے طویل دورے آج کل کے نئے کھلاڑیوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کہتے ہیں کہ ان کے کھلاڑیوں پر تو یہ اثرات کچھ زیادہ ہی مرتب ہوتے ہیں ۔'میں اپنے کھلاڑیوں کو سلام پیش کرتا ہوں'۔اے ایف پی