• KHI: Partly Cloudy 20.9°C
  • LHR: Cloudy 12.8°C
  • ISB: Heavy Rain 14.5°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.9°C
  • LHR: Cloudy 12.8°C
  • ISB: Heavy Rain 14.5°C

'میری بہن کا ہار'

شائع June 26, 2015 اپ ڈیٹ June 27, 2015

پہاڑ کھودنے سے چوہا نکلنے کا محاورہ تو شاید سب نے سنا ہوگا، لیکن حاتم طائی کی قبر سے بن کفن کے کسی مردے کا نکلنا شاید کسی نے بھی نہ سنا ہو گا۔ بات اتنی بڑی بھی نہ تھی، لیکن میڈیا میں آگئی تو سمجھو بڑی بن گئی۔ آخر یہ میڈیا والے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کسی نے بدعنوانی کر ہی لی تو ڈھنڈورا پیٹنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ انسان ہے، بن پروں والا فرشتہ تھوڑی ہے کہ غلطی، جرم، اور گناہ اس سے نہ ہو۔ اور وہ بھی سید زادے کی بدعنوانی۔ میں تو کانوں کو ہاتھ لگالوں کہ ملتان کے اس سید خانوادے کے متعلق کچھ کہوں، کچھ سنوں۔ لکھوں گا وہی، جو پڑھا، باقی دروغ بر گردن راوی۔

کہتے ہیں کہ ملک پاکستان میں 2010 میں تباہ کن سیلاب آیا، انسان مٹے، جانور مٹے، فصلیں مٹیں، اور گھر مٹے۔ ایسی تباہی مچی کہ برادر ملک ترکی کے وزیراعظم (موجودہ صدر) رجب طیب اردگان کی اہلیہ محترمہ کی بھی آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ ان کی سیلاب متاثرین کے ساتھ تصویریں دنیا نے نیٹ پر خوب دیکھیں، اور دیکھ بھی رہے ہوں گے۔

غرض ترک خاتون اول سے تباہی دیکھی نہ گئی، اور انہوں نے اپنی شادی کا قیمتی ہار حکومتِ پاکستان کو اس شرط کے ساتھ عطیہ کردیا کہ اسے نیلام کر کے رقم سیلاب زدگان کو دے دیں۔ اب موصوفہ کو کیا پتہ کہ انہوں نے کس قوم کے حکمرانوں کے سامنے کیا بات کہہ ڈالی ہے۔ بہرحال، ہار آ گیا، اور بہت سوں کو بھا بھی گیا۔

پڑھیے: ہیروں کا ہار، نئے دعوے دار

عطیہ خداوندی تو نہیں "عطیہ ترکیا" کے کچھ عرصے بعد اس وقت کے بڑے وزیر یعنی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے دادو جانے کا پروگرام بنایا تاکہ وہاں جا کر وہ سیلاب متاثرین کی داد رسی کرسکیں۔ ان کے ساتھ جہاز میں اس وقت کے چیئرمین نادرا علی ارشد حکیم بھی تھے جنہوں نے جناب کو حکیمانہ مشورہ دیا کہ دادو میں سیلاب سےمتاثرہ آٹھ لڑکیوں کی شادی کی تقریب ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یہ ہار انہیں دے دیا جائے، لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہار ایک ہے اور گردنیں آٹھ۔

اس مسئلے کا حل بھی حکیم صاحب نے ہی تجویز کردیا کہ نادرا کے بجٹ سے یہ ہار سولہ لاکھ روپے میں خرید لیتے ہیں، اور وزیراعظم اس سے ہر دلہن کو دو دو لاکھ روپے سلامی دیں، یوں آٹھ دلہنیں بھگت جائیں گی، آپ بھی خوش، دلہنیں بھی خوش، اور ترک خاتون اول بھی خوش۔ وزیراعظم کو مشورہ بڑا صائب لگا اور انہوں نے فوری طور پر ہاں کر دی۔

کاغذی کارروائی پوری ہوئی تو مسئلہ ہار کی ملکیت کا آ گیا، چنانچہ چیئرمین نادرا نے کمالِ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے محکمے کے پیسوں سے خریدا گیا ہار وزیراعظم کو ہی عطیہ کردیا، یعنی عطیہ در عطیہ، کہ جناب آپ اسے پرائم منسٹر ہاؤس کی زینت بنالیں، یوں آنے جانے والے اسے دیکھیں گے تو پاک ترک دوستی کی یاد تازہ ہوگی۔ ہمارے محترم گیلانی کو یہ بات بھی عظیم تر قومی مفاد میں اچھی لگی اور یوں وہ ہار وزیراعظم ہاؤس پہنچ گیا۔

مزید پڑھیے: قیمتی ہار کی گمشدگی، ایف آئی اے کا گیلانی سے رابطہ

غالباً جون 2012 کی بات ہے کہ گیلانی صاحب کو نااہلی کی بنا پر پرائم منسٹر ہاؤس خالی کرنا پڑا تو وہ ملتان جاتے جاتے اپنے ساتھ یہ ہار بھی لے گئے جس کا کسی نے پوچھا، نہ ہی کسی کو کانوں کان خبر ہوئی، یوں بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن پتہ نہیں قائمہ کمیٹی کو چند روز پہلے کیا سوجھا کہ اس کے گڑے مردے اٹھ گئے، اور انہوں نے ہار سے متعلق اس زور سے شور مچایا کہ کان پڑی آواز بھی کہیں گم ہو جاتی۔ "ہار کدھر ہے؟" ہر اک زبان پر یہ سوال نعرہ مستانہ بنا گیا۔

بات پھیلتے پھیلتے اتنی پھیلی کہ سال میں 6 بار ناراض ہونے والے وزیر داخلہ کے کانوں پر بھی جوں نے رینگنا شروع کردیا اور انہوں نے اپنی خاص ایجنسی یعنی ایف آئی اے کو ہار برآمد کرنے کا حکم دے دیا۔ اب سرکاری دستاویزات میں تو ہار ہے، لیکن سرکارکے پاس ہار نہیں ہے، ہار کس کے پاس ہے، کسی کو بھی نہیں پتہ۔

بات جب بڑھ گئی تو ارشد علی حکیم معصومانہ انداز میں بول پڑے کہ انہوں نے تو ہار گیلانی صاحب کو اس لیے دیا کہ وہ اسے ترک حکومت کو واپس کر دیں، اس وضاحت پر عزت سادات کے آبگینوں کو بھی ٹھیس پہنچی۔ فوراً سے بولے کہ تحائف تو سربراہان مملکت کے طرف سےانہیں ملتے رہتے تھے وہ ہار میرے پاس ہے۔

پڑھیے: ترک خاتون اول کے ' گمشدہ ہار' کا معمہ حل

بات صحیح ہے اور صحیح نہیں بھی، صحیح اس طرح کہ تحفے سربراہ حکومت اور ریاست کو ہی ملتے ہیں، لیکن وہ قوم کی امانت ہوتے ہیں اور خزانے میں جاتے ہیں اور صحیح نہیں اس طرح کہ ترک خاتون نے جو ہار دیا تھا وہ تحفہ نہیں عطیہ تھا اب یہ عطیہ اگر فوزیہ یوسف گیلانی کے پاس چلا گیا تو اس میں ترک خاتون اول کا کیا قصور۔

اور ویسے بھی گیلانی صاحب نے انکشاف کر ہی دیا ہے جس کے بعد سب کی زبان بندی ہوجانی چاہیے کہ اردگان خاندان کے ساتھ تو ان کے خاص مراسم ہیں جب کبھی استنبول جائیں گے اپنی بہن کو ہار لوٹا دیں گے۔

ارے یہ کیا؟ آپ تو خوامخواہ ہی گیلانی صاحب کے بارے میں پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہے تھے، انہوں نے تو صرف کچھ ہی سالوں میں ہار لوٹا بھی دیا۔ اب اعتراض کرنے والے اور کتنے اعتراض کریں گے ہمارے سابق وزیرِ اعظم پر؟

شہزاد اقبال

بلاگر سولہ سال سے پیشہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ گیارہ سال پرنٹ میڈیا کی خاک چھانتے رہے، جبکہ گزشتہ پانچ سال سے الیکڑانک میڈیا کی خاک بنے ہوئے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

sharminda Jun 27, 2015 02:39am
Syed "zaday" jo tehray. Syedo ko kahan dunyawi maal say gharz hoti hai.

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025