پورن کے ذریعے انتقام: متاثرین کہاں جائیں؟

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2015
بلیک میل کیے جانے کے خلاف مدد نہ ملنے پر خواتین کے پاس بلیک میلر کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔
بلیک میل کیے جانے کے خلاف مدد نہ ملنے پر خواتین کے پاس بلیک میلر کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔

گذشتہ ہفتے ڈان کی ایک خبر کے مطابق لاہور میں مجرمان کے ایک گروہ نے کچھ لیڈی ڈاکٹرز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کی نجی معلومات ہتھائیں، اور پھر انہیں بلیک میل کیا۔

یہ خبر پڑھ کر مجھے اس سال کی ابتداء میں ہونے والی ایک پیش رفت یاد آئی کہ امریکا اور برطانیہ نے 'ریوینج پورن' یعنی انتقام لینے کے لیے فریقِ مخالف کی عریاں تصاویر شائع کرنے کو غیر قانونی قرار دیا۔

'ریوینج پورن' میں کسی شخص کی برہنہ تصاویر اس کی اجازت کے بغیر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ان واقعات کے متاثرین کی مدد کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق وہ اسے "بلا اجازت فحش نگاری" کے طور پر دیکھتے ہیں جو "ٹھکرایا گیا سابق دوست یا ساتھی ایک رشتے کے ختم ہونے پر انتقام لینے کے لیے پوسٹ کرتا ہے۔"

"ٹھکرایا گیا سابق دوست یا ساتھی ایک رشتے کے ختم ہونے پر انتقام کے لیے بیتاب"، اگر آپ پاکستان میں پلے بڑھے ہیں تو یہ الفاظ آپ کے لیے نئے نہیں ہوں گے۔ ہر اسکول میں اپنی کہانیاں ہیں، ہر حلقہء احباب لڑائی جھگڑے پر ختم ہونے والے رشتوں کے بارے میں جانتا ہے۔

زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بی بی سی کے مطابق وہ خواتین جو ان معاشروں سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عزت اور غیرت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس کا نشانہ زیادہ بنتی ہیں۔ اس طرح پاکستان خواتین کے لیے ایک مشکل جگہ ہے پھر چاہے یہ شادی ہو یا صرف ایک تعلق۔

فیس بک پر ایسے پیجز بڑھتے ہی جا رہے ہیں جن پر پاکستانی خواتین کی ہزاروں تصاویر بغیر اجازت کے پوسٹ کی جاتی ہیں تاکہ ان خواتین کو بدنام کیا جائے جو اپنے دوست یا ساتھی پر بھروسہ کرنے کی غلطی کرتی ہیں۔

متاثرین کو انصاف یا مدد فراہم کرنے والی تنظیمیں ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد میں نے خواتین کی طرف رخ کیا۔ کئی خواتین سے سوال جواب کے بعد بالآخر کئی باتیں آشکار ہوئیں۔

مجھے جو جوابات حاصل ہوئے، انہوں نے میرے مفروضوں کو مزید تقویت بخشی۔ بلیک میلنگ اور انتقامی کارروائی ایک روز مرہ کی حقیقت ہے، جبکہ متاثرین کی مدد کے لیے کوئی ادارہ نہیں، یہاں تک کہ پولیس بھی کئی بار مدد مانگنے والے متاثرین کو مزید پریشان کرنے میں لطف اٹھاتی ہے۔

لڑکیوں کے لیے ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں انہیں مدد مل سکے، اور اس طرح انہیں بسا اوقات زبردستی جذباتی اور جسمانی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کر لیا جاتا ہے۔ انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر جسمانی یا جذباتی تعلق قائم نہیں کیا گیا تو ان کی تصاویر ان کے گھر والوں کو دکھا دی جائیں گی۔ پھر یہ خواتین اپنے گھر والوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے اس استحصالی تعلق کو بھی برداشت کر لیتی ہیں۔

کچھ حیران کن جوابات میں خواتین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پاکستان میں خواتین کو جنسی طور پر دبانا، اور دبائے جانے کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں ہی قصوروار ٹھہرانا عام ہے۔ اس روایت کا سب سے پریشان کن حصہ 'عزت' بچانے کے لیے خاموش رہنا ہے۔

تو اس طرح کی بلیک میلنگ یا انتقام کا شکار ہونے والے لوگ کہاں جائیں؟

میں نے ایف آئی اے کے نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم کی ویب سائٹ دیکھی۔ ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل طرح کی شکایات پر "کارروائی کر سکتے ہیں": بلا اجازت رسائی، ای میل ہیکنگ، سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ ۔۔۔ وغیرہ، مگر کہیں بھی نجی تصاویر کو انتقام یا بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنے کا ذکر نہیں ہے۔

جب وفاقی تحقیقاتی ادارہ اور ملک کے پولیس اداروں میں مردوں کی بالادستی ہو، اور وہاں پر متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے ان کی بدنامی کی جائے، تو متاثرین اپنے عزت داؤ پر لگائے بغیر انصاف، قانونی مشورہ، اور رہنمائی کہاں سے حاصل کریں؟

اس ڈیجیٹل دور میں خواتین کو تحفظ اور بااختیار بنانے کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

کسی کی تصاویر بلا اجازت شائع کرنا کسی کی نجی زندگی میں در اندازی ہے، اور غیرت کی بنیاد پر قائم معاشروں میں اسے خواتین کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

جس طرح امریکا اور برطانیہ نے اس کو جرم قرار دیا ہے، اسی طرح پاکستان کو بھی خواتین کو اس چیز سے بچانے کے لیے سخت قانون سازی کرنی چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (6) بند ہیں

Naveed Chaudhry Sep 01, 2015 11:50pm
Asalam O Alikum, I am 100 percent with you on the subject that these omen should be givin proper protection. Abusers should be punished properly in such a way that it become a lesson for others.. Further we need to guid our youth and for that mater whole papulation that what is wrong and what is right. What our religion teaches us. Also solve the problams of marige etc. Genrally our society need to understand what our religion teaches us. We should follow Islam completly. But until than these victims should be protacted even if they are also part of this problam. As per Islam first step is corrections not punisheements but when it comes to punish it should be such that others take a lesson from it. Also to all these victim I have to say trust your elders and that may get you out of this intead of submitting to these crimnals. Be brav May God Allmighty help you. Aameen.
Yusuf Sep 02, 2015 12:56am
Why people take nude photos of themselves in the first place???????
Imran Sep 02, 2015 02:04am
جتنے پاکستان سے باہر ہیں وہ پاکستاں کے لیے مرے جارہے ہیں جو ملک کا نظام چلا رہے ہیں وہ کچھ نہیں سوچ رہے
Mohammad Ayub Khan Sep 02, 2015 11:05am
please follow the law of your country
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 02, 2015 07:03pm
دیکھیں جی بدنامی کا ڈر بزدلی اور عقل سے پیدگی ہے۔ لیڈی ڈاکٹرز کی تصاویر کو گینگ سافٹ وئیر کی مدد سے ایڈٹ کرتا تھا اور تصاویر کو فحش بناتا تھا۔ یہ گینگ جعل سازی کر کے لیڈی ڈاکٹرز کو بلیک میل کرتا تھا۔ جب یہ سب ہے ہی جعلی اور سافٹ وئیر کا کمال تو لیڈی ڈاکٹرز جو تعلیم یافتہ ہیں، کو کیا ضرورت تھی بلیک میل ہونے کی؟ کیوں گینگ کو پیسے دیتی رہیں؟ لیڈی ڈاکٹرز کو اپنے گھر والوں اور متعلقہ تحقیقاتی ایجنسی کو اعتماد میں لیکر بلیک میل ہونے سے خود کو بچانا چاہیے تھا۔ دوسری طرف گینگ کے ہاتھوں بلیک میل ہونا اور ان کو رقم دینا بھی جُرم ہے جسے جرائم پیشہ افراد کو سپورٹ کرنا شمار کیا جا سکتا ہے۔ تحقیقاتی اداروں میں مردوں کی بالا دستی کا یہ معنی نہیں کہ وہ لیڈیز کے کیسز کو صنفی تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یہی ادارے مردوں کے کیسز کو بھی ڈیل نہیں کرتے جب تک محکمانہ دباؤ نہ ڈلوایا جائے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ سافٹ وئیرز سے ہر قسم کی تصاویر بنائی جا سکتی ہیں، سیاستدانوں کی غیرشائستہ تصاویر سے سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔ پھر بلیک میل ہونا ناسمجھی تھی ڈاکٹرز کی۔
waqas Sep 03, 2015 10:45am
tasveer lenay ki zarurat hi kia hy? khwateen ko mard dost rakhnay ki zarurayat kia hy?