پاکستان میں پاسپورٹ کی تجدید کا تلخ تجربہ

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2015
بسا اوقات پاسپورٹ آفس میں آپ سے وہ دستاویزات بھی طلب کر لی جاتی ہیں جن کے بارے میں آپ کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا۔ — Dawn/File
بسا اوقات پاسپورٹ آفس میں آپ سے وہ دستاویزات بھی طلب کر لی جاتی ہیں جن کے بارے میں آپ کو پہلے سے نہیں بتایا جاتا۔ — Dawn/File

گذشتہ سال میرے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہوئی تو میں نے پاسپورٹ آفس جانے اور طویل خواری کا سوچ کر پاسپورٹ کی تجدید کروانے کا خیال ذہن سے جھٹک دیا۔

مگر پی ایچ ڈی کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے بیرونِ ملک کم از کم ایک ریسرچ پیپر شائع کرنا تھا۔ خوش قسمتی سے میرا پیپر امریکا کے شہر سان فرانسسکو کی ایک کانفرنس کے لیے منظور ہوگیا۔ اب مجھے پاسپورٹ کی تجدید بہرحال کروانی ہی تھی۔

پھر ایک منگل کے دن میں نے آخر کار مرکزی پاسپورٹ دفتر جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں صبح 8:30 پر وہاں پہنچا، اور جب میں دفتر کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک درجن لوگوں نے مجھے گھیر لیا جو میرے پاسپورٹ کی تجدید میں میری 'مدد' کرنے کی پیشکش کر رہے تھے۔

ایجنٹس سے ملیے

انہیں عام طور پر ایجنٹ کہا جاتا ہے، اور اپنے ہاتھوں میں بینک چالان اٹھائے ہوئے یہ لوگ آپ کو خواری سے بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ایک قیمت پر۔

وہ 15 منٹ میں درخواست جمع کروانے اور پاسپورٹ گھر پہنچانے کی گارنٹی دیتے ہیں۔ پیشکش اتنی اچھی تھی کہ حقیقی ہو ہی نہیں سکتی تھی، اس لیے میں نے ان کی کسی بھی بات پر توجہ نہیں دی اور سیدھا اندر چلا گیا۔

اندر چار بے ہنگم سی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کروں یا کہاں سے شروع کروں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر معلوماتی کاؤنٹر تلاش کرنے میں ناکام رہا۔

خوش قسمتی سے مجھے اپنا ایک ساتھی دکھائی دیا جو پاسپورٹ کی تجدید کے لیے ہی وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے پورا مرحلہ سمجھاتے ہوئے مجھے کہا کہ میں شارعِ فیصل پر عوامی مرکز برانچ میں جاؤں، جو میرے رہائشی علاقے کے لوگوں کے لیے ہے۔ اس نے کہا کہ "وہاں یہاں جتنا رش بھی نہیں ہوگا۔"

لیکن اس نے ایک بات بتائی کہ "وہاں کبھی کبھی لنک ڈاؤن ہوجاتا ہے۔"

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور فوراً ریجنل آفس پہنچ گیا۔ ایک بار پھر ڈھیروں ایجنٹس نے مجھے گھیر لیا، اور میں ایک بار پھر انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اندر چلا گیا۔ یہ دفتر پچھلے دفتر سے واضح طور پر بہتر تھا۔

وہاں پر ایک معلوماتی کاؤنٹر بھی تھا۔ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے بینک میں فیس جمع کروانی ہوگی، اور اس کے ساتھ زائد المیعاد پاسپورٹ، اصلی شناختی کارڈ، اور ان کی نقول چاہیے ہوں گی۔ بینک کی برانچ عوامی مرکز نامی اس عمارت کی دوسری منزل پر تھی۔ میں گیا، فیس جمع کروائی، اور واپس آیا تو ایسی قطار میری منتظر تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

لمبا انتظار

10:30 بج رہے تھے اور مجھے یونیورسٹی جانا تھا اس لیے میں نے دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن صبح 9:30 بجے میں ایک بار پھر ٹوکن کے لیے قطار میں کھڑا ہوا تھا۔ قطار اتنی لمبی تھی کہ وہ دفتر سے باہر گلی تک پہنچی ہوئی تھی اور لوگ دھوپ میں کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔

انتظار کرتے ہوئے میں نے وقت گزاری کے لیے لوگوں سے بات چیت شروع کر دی۔ ان کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ ایک شخص، جو ایک بینک میں سینیئر مینیجر ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ آخری دفعہ یہاں آئے تھے، تو وہ تمام مطلوبہ دستاویزات ساتھ لے کر آئے تھے لیکن جب وہ آخری کاؤنٹر پر پہنچے تو ان سے ان کے والدین کے اصل شناختی کارڈ طلب کیے گئے۔

ایک دوسرے شخص نے مجھے بتایا کہ اس سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تھا۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس سے بجلی کا تازہ ترین بل مانگا گیا، اور ان سب ہی لوگوں سے کہا گیا کہ بغیر ان دستاویزات کے ان کا کام نہیں ہو سکتا۔

جب میں نے کہا کہ معلوماتی کاؤنٹر نے تو ان میں سے کسی دستاویز کے لیے نہیں کہا، تو وہ میری معصومیت پر مسکرانے لگے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں اگر آخری کاؤنٹر پر کسی بھی دستاویز کی غیر موجودگی کا جواز دے کر میرا کام ٹرخا دیا گیا تو؟

قطار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی گئی، اور آخرکار میں دھوپ سے نکل کر سائے میں پہنچ گیا۔ اچانک سر کے اوپر گرم ہوا محسوس ہوئی۔ دیکھا تو دو اے سی ہیٹر گرم ہوا پھینک رہے تھے۔

آگے بڑھنے پر میں نے ایک سکیورٹی گارڈ کو دیکھا جو قطار کو سیدھا رکھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور قطار سے باہر نکل کر کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ میں گارڈ کو اس کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔ کئی لوگ سفارشیں لے کر آئے لیکن اس نے کسی کو اندر نہیں جانے دیا۔

آخرکار قطار دفتر کے اندر پہنچ گئی۔ اندر صرف دو کاؤنٹر تھے، ایک مردوں کے لیے اور ایک عورتوں کے لیے۔ لیکن پھر میں نے دیکھا کہ ایک تیسرا کاؤنٹر بھی تھا جو ٹوکن کے لیے تھا۔ میں ایک گھنٹے سے قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا مگر چند لوگ ایسے بھی تھے جو باہر جانے والے دروازے سے ایجنٹس کے ساتھ اندر آتے اور قطار میں کھڑے ہوئے بغیر اپنا کام کروا کر نکل جاتے۔

اب ہم سب کو غصہ آگیا۔ مسلسل اس حرکت کی وجہ سے ہماری باری آنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میرے پیچھے موجود شخص نے چلانا شروع کر دیا۔ ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا اور فوراً اسسٹنٹ ڈائریکٹر 'صاحب' آئے اور ہمیں ٹھنڈا کیا۔ انہوں نے ٹوکن والے شخص کو بھی 'ڈانٹا'۔

دو گھنٹے قطار میں لگے رہنے کے بعد مجھے ٹوکن ملا۔ میں نے تصویریں کھنچوائیں اور انگلیوں کے نشانات دیے، اور پھر ڈیٹا اینٹری کے لیے گیا۔ ٹوکن کاؤنٹر اور ڈیٹا اینٹری کاؤنٹر کے درمیان اتنی کم جگہ تھی کہ آپ صرف کاؤنٹر کی سائیڈ پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے سب ہی سانس لینے میں مشکل محسوس کر رہے تھے کیونکہ اے سی بمشکل چل رہے تھے۔

یہ ایک بہت تھکا دینے والا اور ناخوشگوار تجربہ تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے ایک کونے میں لگی ہوئی ننھی سی ٹی وی اسکرین پر چل رہے کرکٹ میچ میں دلچسپی لینے کی کوشش کی تاکہ آس پاس کے اس ماحول کو نظرانداز کیا جا سکے۔

سب سے زیادہ خوفناک الفاظ

جب مجھے لگا کہ اس سے زیادہ خراب صورتحال تو کچھ نہیں ہوسکتی، اچانک کوئی چلایا:

"لنک ڈاؤن!"

اس کا مطلب تھا کہ اب کام نہیں ہو سکتا۔ ہم لوگ دم گھٹے ہوئے کھڑے تھے جبکہ اسٹاف آرام سے چائے منگوا کر کرکٹ میچ دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار یونیورسٹی کے ایک ساتھی سے پاسپورٹ کی تجدید کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے ایجنٹ کے ذریعے کام کروایا تھا۔

دلچسپ بات ہے کہ ایجنٹ نے اسے کہا تھا "سر جی جلدی کریں، لنک ڈاؤن ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے۔"

تب ہی مجھے سمجھ آیا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اس کے بعد 40 منٹ گزر گئے اور لوگوں میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔

12:15 بجے تک مجھے لگا کہ میرا کام اس دن نہیں ہوگا۔ کچھ ہی دیر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ وہ صرف پاسپورٹ کی تجدید کی درخواستیں قبول کریں گے اور دوسرے کام اب نہیں ہو سکتے۔

یہ میری خوش قسمتی تھی۔

انہوں نے میرا ٹوکن لیا اور مجھے اور میرے دوستوں کو ایک ایک کر کے بلایا۔ 5 منٹ میں میری باری آگئی۔

اس کے بعد وہ آخری کاؤنٹر آیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ جب میں کاؤنٹر کی جانب بڑھا تو میں نے ان پریشان اور غصے میں بھرے ہوئے چہروں کو دیکھا جو "لنک اپ ہو گیا ہے" سننے کے لیے بے تاب تھے۔

آخری کاؤنٹر پر 'اسسٹنٹ ڈائریکٹر' کی تختی لگی ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر صاحب جو تب تک کافی دباؤ میں تھے، نے کچھ نہیں پوچھا اور میری درخواست پر دستخط کر دیے۔

میرا کام ہو جانے پر جو سکھ کا سانس میں نے لیا، وہ بیان سے باہر ہے۔

لیکن سکھ کے اس سانس کے بعد میں نے سوچا کہ ہماری حکومت عوام کی خدمت کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔

یہ صرف میرا تجربہ ہے۔ اس ملک میں لوگ ہر روز سرکاری ہسپتالوں، تھانوں، لائسنس دفاتر، اسکولوں، ضلع کونسلوں اور دیگر سرکاری اداروں میں ایسی ہی خواری سے گزرتے ہیں۔

اور پھر جب ہم پارلیمنٹ لاجز، وزیرِ اعلیٰ ہاؤسز، گورنر ہاؤسز اور ایوانِ صدر کو دیکھیں تو ہمیں کیسا محسوس ہونا چاہیے؟ سیاسی اشرافیہ اپنا خیال تو پوری طرح رکھتی ہے۔

ایک ایڈمنسٹریٹر کی تبدیلی یا ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانا یا نیب کو ٹھیک کر دینا ہمیں ایسی قوم نہیں بنا سکتا جو اپنے شہریوں کا خیال رکھتی ہے۔

یہ صرف تب ہوگا جب اعلیٰ ایوانوں میں موجود لوگ اپنی اقدار تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ صرف تب ہی تبدیلی نیچے تک محسوس ہوگی۔

میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب پاکستان میں عوامی خدمت کے لیے سرکاری اداروں کا ضمیر جاگے گا۔ کیا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 18, 2015 06:21pm
ایک بدمزہ واقعہ ایک خوبصورت تحریر۔ یہ ہمارے آئے دن کے مسائل ہیں۔ عوام ان کو نوٹ کر لے، ایک ایک کو، اور اسے انتخابی معملہ بنالے۔ اگر سب مل کر زور لگائیں تو یہ نظام ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ذور لگانے سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ احتجاجی دھرنے اور جلسے جلوس کیے جائیں، بلکہ انتخاب میں کھڑے ہونے والے امیدوار کو اسی بنیاد پر ووٹ دیا جائے جب وہ ان مسائل کی سمجھ کا مظاہرہ کرے۔
نو Nov 18, 2015 08:16pm
"یہ صرف میرا تجربہ ہے۔ اس ملک میں لوگ ہر روز سرکاری ہسپتالوں، تھانوں، لائسنس دفاتر، اسکولوں، ضلع کونسلوں اور دیگر سرکاری اداروں میں ایسی ہی خواری سے گزرتے ہیں۔" یہ ہی باتیں عوام کو رشوت دے کر کام کروانے پر مجبور کرتی ہیں۔اگر آپ کے پاس ایک کاغذ بھی کم ہو تو آپ کا جائز کام ہونا ممکن نہیں لیکن رشوت دے کر آپ کسی کی زمین بھی اپنے نام کرواسکتے ہیں۔
Khan Nov 18, 2015 09:12pm
السلام علیکم نادرا میں محض ایک مسئلہ نہیں، صرف شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دفاتر کے باہر لگی قطاروں ہی کو دیکھ لیں تو اس سے عوام کی مشکلات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، دوسری جانب حکومت نے آئین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑے لوگوں کے لیے ایگزیکٹو سینٹر بنادیے ہیں، پہلے جن کو ارجنٹ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ چاہیے ہوتا تھا وہ عوام کے ساتھ لائین میں لگ کر زیادہ فیس ادا کرتے تھے، اب ان لیے ایگ سینٹر قائم کردیے گئے ہیں، حالانکہ سابق نظام کو ختم کرنے کے بجائے سینٹرز کی تعداد زیادہ کرنی چاہیے، جن کو ارجنٹ درکار ہو و زیادہ فیس ادا کریں، الگ سینٹر قائم کرنا صرف و صرف عوام کو خود سے دور رکھنا ہیں۔ دوسری جانب آن لائن نظام کی تربیت موبائل فرنچائز والوں کو دے کر ان سے آن لائن تمام دستاویزات[تفصیلات] پُر کرائی جائے اور تصدیق ہونے پر پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کی ایک مقررہ تاریخ اور وقت بتا کر شہریوں کو ذاتی طور پر ایک مرکزی دفتر سے پاسپورٹ یا شناختی کارڈ فراہم کیا جائے، تفصیلات یا دستاویزات میں کمی کی صورت میں پہلے سے آگاہ کردیا جائے۔ خیرخواہ
samo Shamshad Nov 18, 2015 10:17pm
It is not only problem of Passport office, but all government departments are like that. They make confused people, but there is no solution of these problems. Thanks for writing that sort of problem,
حافظ Nov 19, 2015 01:49am
یہ تصویر پاکستانی پاسپورٹ آفس کی ہے؟ اور میرے کمپیوٹر پر تمام پاسپورٹس نیلے نظر آرہے ہیں۔ میرا تو گرین ہے ویسے۔ یہ ڈپلومیٹک ہونگے۔
Sumair Afzal Nov 19, 2015 06:42am
I have renewed my passport from Islamabad. All information is written clearly on a board outside office. Also there is information counter and is functional, but i don't have to reach that counter. I have to stand in long que, but this is happening to every individual. Overall i faced no problem.
Haider Shah Nov 19, 2015 12:15pm
in 21th centaury Next Generation would be Knowledge base but when I said that, I don't know where I found knowledge, technology, agility, innovation ,creativity.....No doubt individual Pakistani has got them all and competent international standard. But here I am talking about roll and responsibilities of Government.....in last 4xdecade Pakistan has gone back where it was 1952.just flashback and see what we had lost in 4x decade ..... few of them are.... Ruin Education System Ruin Infrastructure Ruin Judiciary Ruin Health System....... list goes on Well, if any nation has stuff up core and foundation of nation building Pillar I would be surprise how building is standing? So pass port issue is just a minor one; think bird eye's view what you are losing ? and what you have to give your next generation? Rest of Life goes on .....peoples eat, sleep,die ......I believe in Pakistan need mass clean-up......I means really clean-up across E2W,N2S.You will have RAISING PAKISTAN than.
Sharminda Nov 19, 2015 02:01pm
Jab mulk ka aik taqatwar shakhs Malik Ryaz kehta hai keh mujhay kaam karwaanay kay liay pahiay lahanay partay hain, aur is kay bayan par kissi kay kaan par joon nahin raingti, ham gareebo ko koon poochay gaa. Aik asaan hal. Kissi mazdoor ko jissay pooray din kaam karnay kay 500 miltay hain, aik din ki dihari par laa kar line main laga do aur side par baith jaaoo. Gareeb ka bhala ho jaay gaa aur aap kam say kam kharay kharay thaknay say bach jaain gay. Nahin tu aaj kal portable chairs aur fans aa rahay hain. Jab kahin gov kay idaray main kaam ho, saath lay kar chalain. Remember, Pakistan ki 18 crore abadi main say 1% ko hi shayyad passport ki zaroorat parti ho. Un may say bhi 50% agent ka sahara laitay hain. Gov kion apna sar khapay is main.
ZohaiB Nov 19, 2015 02:19pm
@نو aap Nay Sahi Kaha hai bahi jaan
Rabdul Nov 19, 2015 03:03pm
ارے بھائی جان لوگوں سے تو میٹرک کے سرٹیفکیٹ اور بجلی کے بل مانگے گئے ، جب میں نے پاسپورٹ بنوایا تھا تو اس وقت مجھ سے میرے والد کے ١٩٦٥ کا شناختی کارڈ منگوایا تھا
Murad Quasim Nov 19, 2015 04:29pm
Just renewed my child's passport through the newly launched Pak Identitity web site. It went like a breeze, no queues, paid via credit card, uploaded my DIY photograph (snapped by myself). No problems here. Bu tI know what you're saying, it's like that in the Government offices pretty much in all walks of life.
Imran Nov 22, 2015 12:57pm
Thank God main KSA main hoon. Aur mujhay Pakistan se passport nhi banwana pare ga