آرمی پبلک اسکول حملہ: شہزاد اعجاز–عمر 12

آرمی پبلک اسکول حملہ: شہزاد اعجاز–عمر 12

والدین : میاں اعجاز احمد اور طاہرہ اعجاز
بہن بھائی : حنا اعجاز (اے پی ایس کی طالبہ، 16 سال)، زکریا اعجاز (12 سال)، بسمہ اعجاز (9 سال)

مہذب اور مطالعے کا شوقین شہزاد ائیرفورس پائلٹ بننے کا خواہشمند تھا۔ وہ راشد منہاس کو اپنے لیے مثالی شخصیت قرار دیتا تھا جس سے وہ سب سے زیادہ متاثر تھا۔ شہزاد کو پاکستان کے لڑاکا طیاروں کی تصاویر جمع کرنے کا شوق تھا اور اس کے والد بتاتے ہیں کہ وہ لڑاکا طیاروں اور فضائی حملوں سے متعلق کتابیں پڑھنا پسند کرتا تھا۔

شہزاد کھیلوں سے لطف اندوز ہوتا تھا، خاص طور پر کرکٹ اور فٹبال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی زکریا جو کہ اے پی ایس کا ہی طالبعلم ہے، یاد کرتا ہے کہ کس طرح ساتویں کلاس میں شہزاد کا بازو ایک فٹبال میچ کے دوران زخمی ہوگیا مگر فریکچر کے باوجود وہ کھیل سے دستبردار نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ شہزاد احمد احمد شہزاد کے ساتھ کرکٹ کھیل اور دیکھ کر بھی لطف اندوز ہوا جو اس کا پسندیدہ کھلاڑی تھا۔

شہزاد کو نت نئے مقامات کو دریافت کرنا بھی پسند تھا اور ہمیشہ اسکول کے ان دوروں کا حصہ بنتا جس کی اسے اجازت دی جاتی۔

زکریا مزید بتایا ہے کہ شہزاد فاسٹ فوڈ کو پسند کرتا تھا اور کس طرح دونوں بھائی اسکول کے بعد چپس اور شوارما خرید کر انہیں کھاتے ہوئے بات چیت کرتے تھے۔

شہزاد کا پڑوسی اور بہترین دوست عثمان اسے پرجوش انداز میں یاد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شہزاد اس کے بھائی کی طرح تھا۔ شہزاد کے والد بتاتے ہیں وہ جب بھی اپنے بیٹے کے دوستوں سے ملتے ہیں تو اپنے بیٹے سے محرومی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جب بھی زکریا کے حوالے سے والدین۔ اساتذہ کی ملاقات کے لیے اے پی ایس جاتے ہیں تو وہ شہزاد کی کلاس میں بھی جاتے ہیں۔

اے پی ایس حملے کے دن شہزاد جلد اٹھ گیا تھا اور اس نے دیکھا کہ اس کے نئے کپڑے مناسب طریقے سے نہیں رکھے ہوئے جس کے باعث وہ برہم ہوگیا۔ اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ کپڑوں کو ہینگر پر لٹکا دیں۔ اس کے والد کے مطابق یہ کپڑے پی اے ایف کالج لوئر ٹوپ میں انٹرویو کے لیے تھے جو وہ نہیں دے سکا۔ شہزاد نے کالج کا ٹیسٹ نوے فیصد نمبروں کے ساتھ پاس کیا تھا اور یہ نتیجہ اس کے دنیا سے چلے جانے کے سات دن بعد آیا تھا۔