100 لفظوں کا کامیاب تجربہ

22 دسمبر 2015
مبشر علی زیدی کی کتاب کا سرورق۔ یہ ان کی چوتھی کتاب ہے۔
مبشر علی زیدی کی کتاب کا سرورق۔ یہ ان کی چوتھی کتاب ہے۔

"حاجی نواز کی حالت خراب ہوئی تو میرا بلاوا آ گیا۔

میں کوئی حکیم نہیں ہوں۔ بس مجھے ملک الموت نظر آ جاتا ہے۔

بیمار کے گھر جاتا ہوں تو بتا دیتا ہوں، اجل آئی ہے یا نہیں۔

گاؤں والے دسیوں بار آزما چکے ہیں۔ میری پیش گوئی کبھی غلط نہیں ہوئی۔

کیونکہ فرشتہ آتا اکیلا ہے، جاتا اکیلا نہیں۔

میں حاجی نواز کے گھر پہنچا تو وہ موجود تھا۔

مجھے دیکھ کر مسکرایا۔

میں نے کہا، "تمھیں پہلی بار مسکراتے دیکھا ہے۔"

کہنے لگا، "ہاں آج حاجی نواز کی باری ہے۔

جس کی باری ہوتی ہے، اس کو دیکھ کر مسکراتا ہوں۔"

مبشر علی زیدی نے سب سے پہلے ہمیں اپنی پہلی کہانی 'مسکراہٹ' سنائی
مبشر علی زیدی نے سب سے پہلے ہمیں اپنی پہلی کہانی 'مسکراہٹ' سنائی

مبشر علی زیدی اپنی پہلی کہانی 'مسکراہٹ' ہمیں سنا رہے تھے اور ہم انتہائی انہماک سے ان کے زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر پوری توجہ دیے ہوئے تھے، اس کی خاص وجہ بھی تھی کیونکہ ان کی 100 لفظوں کی کہانی بہت سارے لوگوں کی طرح ہمیں بھی اچھی لگتی تھی۔

انگریزی ادب میں 100 لفظوں کی کہانی یا افسانے 80 کی دہائی سے لکھے جا رہے ہیں مگر اردو میں ایسا اعلانیہ تجربہ پہلی بار جیو نیوز سے وابستہ اس جواں سال صحافی نے کیا ہے اور صرف تجربہ ہی نہیں کیا بلکہ کامیاب تجربہ کیا۔

ان کی کتاب '100 لفظوں کی کہانی' کی رونمائی کی تقریب میں روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی جناب خلیل ناصر صاحب کی مہربانی سے شریک ہوئے تو احساس ہوا کہ مبشر علی زیدی کے سر کے بالوں اور کہانی کے قلم میں بزرگی ہے، باقی تو وہ ہم سے بھی کم عمر لگتے ہیں۔

اپنے تجربے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ 3 سال سے 100 لفظوں کہانی لکھ رہے ہیں البتہ اس کی اخبارات میں باقاعدہ اشاعت ایک سال قبل ہی شروع ہوئی، اور ان کی کہانی جنگ اخبار کے ادارتی صفحے پر چھپ رہی ہے۔

مبشر علی زیدی نے اس سلسلے کی ابتداء کے حوالے سے بتایا کہ وہ چونکہ ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں تو وہاں ساری توجہ ہی اسی بات پر ہوتی ہے کہ کم لفظوں اور تھوڑے وقت میں زیادہ بات کیسے پہنچائی جائے، ایسا ہی ایک بار 300 الفاظ کی خبر کو 100 سیکنڈز تک لانے کی جدوجہد میں ان کو احساس ہوا کہ اس کو کہانی بھی بنایا جا سکتا ہے۔

جیو نیوز میں خبریں بناتے بناتے انہوں نے کہانی کا آئیڈیا تو حاصل کر لیا اور اس پر کام بھی شروع کرکے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں مگر بقول مبشر علی زیدی کے ان کے دل و دماغ میں یہ بات مستقل گھومتی رہی کہ ہو سکتا ہے کوئی اور بھی 100 لفظوں کی کہانی لکھ رہا ہو لیکن وہ اس سے بے خبر ہوں۔

ویسے انگریزی میں 100 لفظوں کے بعد اس بھی اختصار کے ساتھ کہانیاں لکھنے کی کوشش کی گئی اور اس پر کام بھی ہو رہا ہے۔

مبشر علی زیدی نے بتایا کہ انہوں نے ابتداء میں 50 کہانیاں لکھیں لیکن کہیں بھی شائع نہیں کروائیں، یوں ابتداء کی 50 کہانیاں ان کے پاس ہی رہیں پھر انہوں نے ایک پبلشر سے بات کی تاکہ اس کو کتاب کی صورت دی جا سکے اور مزید کہانیاں لکھ کر 100 کے قریب کہانیوں پر مبنی کتاب شائع کروائی۔

'100 لفظوں کی کہانی' مبشر علی زیدی کی چوتھی کتاب ہے اس سے قبل تین کتابیں نمک پارے، شکر پارے اور الم غلم شائع ہو چکی ہیں۔

اپنے 100 لفظوں کے ہی انتخاب پر ان کا کہنا تھا کہ اب لوگوں کے پاس وقت کم ہے، وہ کم وقت میں ہی بات سمجھ جانا چاہتے ہیں جبکہ میرے پاس اپنی صحافتی مصروفیات ہیں تو طویل تحریروں کے لیے مجھے وقت کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔

صاحبِ کتاب روزنامہ جنگ کے خلیل ناصر کے ہمراہ
صاحبِ کتاب روزنامہ جنگ کے خلیل ناصر کے ہمراہ

روزنامہ جنگ میں 100 لفظوں کی کہانیوں کی اشاعت کے بعد ملک کے دیگر اخبارات نے بھی اپنے ادارتی صفحات پر اب اسی طرح کے سلسلے شروع کر دیے ہیں، جبکہ مبشر علی زیدی کا کہنا تھا کہ ان سے بعض ایسے افراد بھی رابطے میں ہیں جو ان کی پیروڈی میں مزید کم الفاظ کی کہانیاں لکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

عمومی طور پر کہانی میں شروع کے جملے تو ایسے لکھے جاتے ہیں جو کہ ہر فرد سے اس کا تعلق جوڑتے ہوں البتہ آخری کا جملہ اس کی پنچ لائن یا اصل نکتہ ہوتا ہے۔

مبشر کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے آن لائن رجسٹریشن لازمی تھی، اس لیے ہم بھی رجسٹرڈ ہوئے اور وقت سے قبل ہی تقریب میں پہنچ بھی گئے البتہ تقریب شروع ہونے کے بعد شدید افسوس ہوا کہ بعض افراد ایسے بھی تھے جن کی نشستیں خالی تھیں اگر ان تمام افراد کو تقریب میں شریک نہیں ہونا تھا تو رجسٹریشن ہی نہ کرواتے تا کہ وہ افراد شریک ہو پاتے جو مبشر کی باتیں سننا چاہتے تھے. ویسے بھی یہ اب بحیثیتِ قوم ہمارا مزاج ہو گیا ہے کہ 'سیٹ' اپنے نام کروا لو چاہے اس کو کام لانا ہو یا نہ ہو، لیکن کسی اور کے لیے جگہ نہیں چھوڑنی۔

مبشر علی زیدی سے جب سوال کیا گیا کہ ان کی کہانیوں میں رومانوی رنگ کیوں مفقود ہے تو ان کا جواب تھا کہ کیونکہ ان کی کہانیاں ایک اخبار کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتی ہیں اسی لیے ان کے موضوعات سیاسی، سماجی یا معاشرتی ہوتے ہیں۔

'100 لفظوں کی کہانی' 160 صفحات پر مشتمل ہے اور آخری صفحے پر چھپنے والی کہانی کا عنوان 'ہدف' ہے، جو کچھ یوں ہے کہ

'ہم نے اس راکٹ میں اناج کی بیسیوں بوریاں رکھ دیں۔

پھر بھی بہت سی جگہ خالی رہی گئی۔

ہم نے اس راکٹ میں کپڑے کے سیکڑوں تھان رکھ دیے۔

ہم نے اس راکٹ میں ہزاروں درسی کتابیں رکھ دیں۔

پھر بھی بہت سی جگہ خالی رہی گئی۔

ہم نے اس راکٹ میں ہزاروں کھلونے رکھ دیے۔

اب وہ بھرا بھرا لگنے لگا۔

ہم نے راکٹ کے نیچے آگ لگا کے اسے چلا دیا۔

وہ ٹھیک نشانے پر لگا۔

اگلے دن تمام اخبارات نے شہ سرخی جمائی

"جدید میزائل کا کامیاب تجربہ"

وسعت اللہ خان صاحب نے مبشر علی زیدی کے لیے کہا ہے کہ "خوش رہو مبشر اور خوش رہیں تمھارے پڑھنے والے۔ مگر ڈرتے رہنا اس گھڑی سے جب کوئی 50 لفظوں میں مؤثر انداز میں کہانی بیان کرنے والا آ گیا۔ تب تم بھی ہماری طرح حیران ہو جاؤ گے کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔"

ویسے تو ان کی 100 لفظوں کی کہانیاں سوشل میڈیا اور موبائل پر ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر گردش کرتی رہتی ہیں، لیکن عمومی طور پر ان پر لکھاری کا نام نہیں ہوتا، جو کہ افسوسناک بھی ہے. ایسی ہی ایک کہانی ایک نامور صحافی نے اپنے فیس بک کے صفحے پر شائع کی لیکن اس پر مبشر کو ان کا کریڈٹ نہیں دیا، اور وہ کہانی تھی 'علاج'۔

" میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کر کے نمبر لیا

اور استقبالیہ کے سامنے بیٹھ گیا۔

اس اسپیشلسٹ کی فیس کافی زیادہ تھی۔

مریض آتے گئے، نمبر لیتے گئے۔

ایک بوڑھی عورت استقبالیے تک پہنچی۔

اس کی آنکھوں میں امیدوں کے دیے جل رہے تھے۔

فیس سن کر دیے بجھ گئے۔

اس نے بیمار بیٹے سے بات کی۔

دونوں دروازے کی طرف بڑھے۔

میں نے راستہ روک کر اپنا نمبر اور رسید انہیں دے دی۔

مجھے کوئی بیماری نہیں۔

ہر ماہ ایک نمبر کسی مستحق مریض کو دے دیتا ہوں،

پھر پورا مہینہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں پڑتا۔"

100 لفظوں کی کہانی کے حوالے سے خود مبشر علی زیدی کا کہنا ہے کہ "یہ اتنی مختصر نہیں ہوتیں کہ تشنگی سے تڑپتا چھوڑ دیں، اتنی طویل بھی نہیں ہوتیں کہ سیراب کر دیں۔ صرف ایک گھونٹ ملتا ہے، کچھ پیاس باقی رہ جاتی ہے، تھوڑی سی پیاس رہ جانی چاہیے، تاکہ طلب گار ایک اور گھونٹ مانگے۔"

تبصرے (5) بند ہیں

حافظ Dec 22, 2015 08:40pm
ہندی میں بھی یہ تجربہ ہو رہا ہے لیکن اردو میں پڑھنا بہت خوشگوار لگا۔
عظیم گوہر Dec 22, 2015 10:36pm
مبشر زیدی صاحب کمال لکھتے ہیں ،،،وقار صاحب نے بھی اچھا تعارف کروایاہے ،،
avarah Dec 23, 2015 02:24am
@حافظ HINDI AND URDU ARE THE SAM E LANGUAGES-OUT OF BIAS INDIAN PEOPLE WRITE IT FROM LEFT MUSLIMS WRITE OT FROM RIGHT. THERE IS NOTHER DIFFERENCE BETWEEN THE TWO.
khalil nasir Dec 23, 2015 08:48am
برادرِعزیز وقار محمد خان نے پر خلوص دوست مبشر زیدی کی کتاب ’’100لفظوں کی کہانیاں‘‘ پر بلاگ لکھا اور بہت خوب لکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو خوبصورت (بہ ہرمعنی) لکھاریوں کے بیچ ناچیز کے ذکرکی چنداں ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہ ہرحال محبت کا شکریہ
سجاد خالد Dec 23, 2015 12:34pm
چند کہانیاں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مبشر علی زیدی واقعتاً بامعنی اختصار کے ساتھ قاری کو اپنی پنچ لائن تک لے آتے ہیں۔