یونیورسٹی رینکنگ: والدین کو کیا دیکھنا چاہیے؟

01 مارچ 2016
یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کا ایچ ای سی کا طریقہ کار خامیوں سے بھرپور ہے جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ خاکہ ڈان ڈاٹ کام۔
یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کا ایچ ای سی کا طریقہ کار خامیوں سے بھرپور ہے جس پر یقین کرنا مشکل ہے۔ خاکہ ڈان ڈاٹ کام۔

وہ تمام والدین جو اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کو لے کر پریشان ہیں، ان کے لیے سب سے ضروری چیز یونیورسٹی کا انتخاب ہوتا ہے: کون سے شعبے میں داخلہ لینا ہے اور کون سے مضمون میں تعلیم حاصل کرنی ہے، فیصلہ ان تمام چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

معروضی معلومات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے فیصلے اکثر سنی سنائی باتوں پر کردیے جاتے ہیں۔

تعلیم کے معیار کے بارے میں مشورہ والدین اور طلبہ کے لیے درست مضمون اور یونیورسٹی کا انتخاب کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایسی کوئی تقابلی اور معروضی معلومات وجود نہیں رکھتیں۔

اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں ہائیرایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سالانہ یونیورسٹی درجہ بندی کی فہرست جاری کرتا ہے۔ اپنے ایک بلاگ میں میں نے بتایا تھا کہ کیوں ایچ ای سی کو بظاہر متصادم مفادات کی بنا پر ان یونیورسٹیز کی درجہ بندی نہیں کرنی چاہیے جنہیں وہ فنڈ مہیا کرتا ہے اور سپورٹ کرتا ہے۔ میں نے درجہ بندی کے محدود پیمائشی نظام کی بھی نشاندہی کی تھی۔

مگر ایچ ای سی نے اس بار بھی خود کو باز نہ رکھتے ہوئے پہلے کی طرح قابل اعتراض پیمائشی طریقہء کار استعمال کرتے ہوئے نئی درجہ بندی کی فہرست جاری کردی ہے۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی نے پرانی معلومات پر انحصار کیا۔

2016 میں جاری ہونے والی درجہ بندی کے لیے 2014 میں ہونے والی ریسرچ کو معیار بنایا گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم کے معیار کو طلبہ کے بجائے انتظامیہ کے نقطہء نظر سے ناپا جاتا ہے۔ حقیقتاً درجہ بندی کے معاملات میں طلبہ کا کوئی حصہ موجود ہی نہیں ہوتا۔

کئی لوگوں کے نزدیک بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے سے مختلف نہیں۔ دونوں اقسام میں سرمایہ کار توقع کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو۔

متوسط طبقے کی کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے پاکستان کے نجی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بے حد مہنگا سودا ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کو یونیورسٹیوں میں بھیجنے کا فیصلہ (محدود) وسائل کو مختص کرنے کا کام مشکل بنا دیتا ہے۔

اسی لیے والدین اور اس سے زیادہ طلبہ کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سی یونیورسٹی اور کون سے پروگرام پر غور کیا جائے۔

والدین کو ایچ ای سی سے مختلف کیوں سوچنا چاہیے؟

ایچ ای سی اور والدین کے لیے معیار تعلیم کی الگ لگ اہمیت ہوتی ہے۔

والدین اور طلبہ تعلیم سے حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں، تو وہیں ایچ ای سی کے لیے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

اعلیٰ تعلیم کے بنیادی اسٹیک ہولڈرز طلبہ ہیں جو روزگار کے مواقع کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔

ان کی بنیادی فکریں یہ ہوتی ہیں کہ کیا وہ ملازمت حاصل کر سکیں گے، کیا ملازمت کی تنخواہ پرکشش ہوگی، کیا تعلیم ان کا کریئر بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی، وغیرہ۔

ایچ ای سی ان غیر ضروری باتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ ان کے ہاں پیمائش کا معیار الگ ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں انٹرنیٹ کا کتنا استعمال کیا جا رہا ہے اور کتنی تعداد میں پی ایچ ڈی ڈگریاں دی جا رہی ہیں۔

دونوں چیزیں درجہ بندی کے مقصد کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

فلموں یا گانوں کو ڈاؤن لوڈ کر کے انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال دکھایا جا سکتا ہے۔ مگر چونکہ ایچ ای سی معیار کے بجائے مقدار کو ناپتا ہے، اس لیے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ انٹرنیٹ کا کارآمد استعمال کیا جا رہا ہے یا بے کار۔

پی ایچ ڈیز کے معاملے پر بھی یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی ڈگریوں کی تعداد کو تو گنا جاتا ہے لیکن ان کی دانشورانہ قدر و قیمت کو نہیں دیکھا جاتا، یعنی یہاں پر بھی مقدار کو ناپا جاتا ہے اور معیار کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

کس طرح بہتر درجہ بندی کی جاسکتی ہے؟

بنیادی طور پر یونیورسٹی کی درجہ بندی بیچلرز پروگرام کے امیدواروں کے لیے فائدہ مند ہونی چاہیے۔ طلبہ یا والدین کے لیے یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ کوئی ادارہ کتنی سختی کے ساتھ ایچ ای سی کی ہدایات پر عمل پیرا ہے کیونکہ یونیورسٹی کی مجموعی درجہ بندی میں ایچ ای سی کی ہدایات پر عمل کا حصہ 15 فیصد ہوتا ہے۔

ماسٹرز یا پی ایچ ڈی ڈگری میں داخلہ لینے والے طلباء کو اپنی ریسرچ کے موضوع اور سپروائزر کے انتخاب میں درجہ بندی کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔ بیچلرز پروگرام میں داخلے کے امیدوار طلباء اعلٰیٰ تعلیم کے نظام سے ناواقف ہوتے ہیں اس لیے انہیں کچھ رہنمائی کی ضرورت پیش ہوتی ہے۔

مندرجہ ذیل معلومات ایچ ای سی کے درجہ بندی کے معیار میں شامل نہیں مگر امیدواروں کے لیے کافی فائدہ مند ہوگی۔

ملازمت کے مواقع

امیدوار کسی مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قبل اس بات کی تسلی کر لیں کہ اس مضمون کے کتنے گریجوئیٹ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کل وقتی طور پر لگاتار 6 مہینے تک اپنے شعبے سے متعلق ملازمت کرتے رہے۔

اس بات سے تعلیم کی مناسبت اور ملازمت کے درمیان تعلق ظاہر ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹیاں شاید ہی کبھی اپنے گریجوئٹس کو حاصل ملازمت کے مواقع پر توجہ دیتی ہیں۔ اگر یونیورسٹیوں کو ان کے گریجوئیٹس کو ملازمت ملنے کے امکانات کی بنیاد پر درجہ بند کیا جائے تو ان کا طرزِ تدریس اور نصاب کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگی میں بہتری آئے گی۔

ابتدائی تنخواہ

فارغ التحصیل طلباء کی تنخواہوں اور کریئرز کے بارے میں آزادانہ سروے کر کے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ جاب مارکیٹ کس طرح گریجوئیٹس کے معیار کو پرکھتی ہے۔

اس سے بھی زیادہ اہم ماسٹرز کے بعد ابتدائی تنخواہوں کا سروے ہوتا ہے۔ دنیا کے ٹاپ بزنس اسکولز کی درجہ بندی کے لیے یہ ایک اہم عنصر ہوتا ہے۔ ابتدائی تنخواہیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ ایک فریش ملازم کو اس کے تعلیمی ادارے کے معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکیٹ کتنی رقم دینے کے لیے تیار ہے۔

ٹیوشن اور دوسرے اخراجات

اعلٰی تعلیم دو وجوہات سے مہنگی ہوتی ہے: پہلی یہ کہ ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر تعلیم پر زیادہ خرچ آتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں ٹیوشن اور دوسرے چھوٹے بڑے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔

تعلیمی ادارے کا انتخاب کرتے وقت کل اخراجات (بشمول یونیورسٹی میں قیام کرنے پر آنے والے اخراجات) کا عنصر اہم ہوتا ہے۔ یہ چیز نجی تعلیمی اداروں کے حوالے سے اہم ہوتی ہے کیونکہ انہیں سرکاری فنڈز کی مالی مدد حاصل نہیں ہوتی۔

طلباء کے تجربات کا سروے

طلباء اعلیٰ تعلیم کے بنیادی اسٹیک ہولڈر ہوتے ہیں۔ مغرب میں یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے لیے یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبہ سے ان کے تعلیمی تجربات کے بارے میں انٹرویو کیا جاتا ہے۔

وہ طلبہ سے حاصل شدہ معلومات کو اساتذہ، تعلیمی وسائل، سیکھنے کے ماحول اور تعلیم کے معیار قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایچ ای سی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طلبہ انہیں دی جا رہی تعلیم کے بارے کیا کہتے ہیں۔

اس طرح نجی اداروں کے پاس زبردست موقع ہے کہ وہ یونیورسٹی درجہ بندی ڈیزائن کریں اور اپنے قارئین کے لیے اسپیشل ایڈیشن تیار کریں۔

کینیڈا اور امریکا میں بہت سے خبررساں اداروں کے لیے یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اسی ماڈل کو پاکستان میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔

درجہ بندیاں جانبداری کے بغیر نہیں ہوتیں، ہمارے روایتی تعصبات اکثر پیمائش کو متاثر کرتے ہیں۔ ایچ ای سی کی درجہ بندیاں بھی دیگر کی طرح متعصب ہیں۔ جو بات معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیتی ہے وہ یہ کہ ایچ ای سی ایک فنڈنگ ادارہ ہے۔ یہ کیسے یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرتا ہے، اس کا اثر اس یونیورسٹی کو ایچ ای سی سے ملنے والے فنڈز پر پڑ سکتا ہے۔

اگر ایچ ای سی کی درجہ بندی سے اس کے فنڈنگ کے فیصلوں پر اثر نہیں پڑتا، تو پھر یہ درجہ بندی دوسروں کے لیے کیسے اہم ہوں گی؟

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

حافظ Mar 01, 2016 07:54pm
کینیڈا اور امریکا میں بہت سے خبررساں اداروں کے لیے یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کرنا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ اسی ماڈل کو پاکستان میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ تو یہ بھی ایک جانبداری کی ہی شکل ہے۔ یونیورسٹیاں پیسہ لگا کر بہتر ریٹنگ لیتی ہیں۔ ویزیٹنگ اور ایڈجنکٹ فیکلٹی کے سہارے چار کمروں پر مشتمل کمپس بھی ٹاپ پانچ سو میں شامل ہیں۔ اس سسٹم کو پاکستان میں لانے سے مزید کنفیوژن پیدا ہوگا۔ اور میڈیا مالکان مزید امیر ہونگے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Mar 01, 2016 09:52pm
بچوں کے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ایک عام ابا امی کچھ یوں سوچتے ہیں کہ گریجویشن میں کتنے نمبر ہیں؟ کس مضمون میں بچے کی دلچسپی ہے؟ کس مضمون کا زیادہ سکوپ ہے؟ اگر اردو میں بچہ زیادہ دلچسپی رکھتا ہے تو ماسٹر ان اردو کرنے کے بعد نوکری کے کون کون سے بوہے کھلیں گے؟ اور کتنی تنخواہ دیں گے؟ اردو میں ماسٹر کرنے سے کہیں بچہ اپنی مادری زبان کو بولنا لکھنا بند تو نہیں کر دے گا اور کلچر کی حفاظت میں ناکام تو نہیں ہو جائے گا؟ ان سوالوں کے جوابات والدین بچے کے سیاسی نظریات کو پرکھ کر حاصل کرنے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچیں گے۔ والدین اور طلباء یہ بھی سوچتے ہیں کہ کس مضمون میں ماسٹر کیا جائے کہ اندرون اور بیرون ملک دونوں میں نوکریوں کےچانسز ہوں، نوکری نہ ملے تو اپنا کاروبار کرنے میں سبجیکٹ مدد دے سکے۔ عمومآ یہی وجہ ہے کہ آج کامرس کی طرف بچے زیادہ جاتے ہیں کہ نوکری کے بھی چانسز ہیں اور اگر نہ ملے تو کاروبار کھولنے اور چلانے کا نالج موجود ہوتا ہے۔ باقی یہ کہ بقول بلھے شاہ: اکو الف تیرے درکار پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر ڈھیر کتاباں چار چوپھیر گر دے چانن،وچ انھیر پچھو،راہ ؟ تے خبر نہ سار علموں بس کریں او یار