سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر نواحی علاقے میں واقع ریلوے پھاٹک پر لگی ہوئی تختی پر ''جکھرا پھاٹک'' لکھا ہوا ہے، لیکن علاقے میں اب کوئی بھی اس پھاٹک کو اس نام سے نہیں جانتا، سب لوگ اسے ''خونی پھاٹک'' کہتے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پھاٹک پر کوئی اثر ہے کیونکہ جب ٹریں نزدیک آنے لگتی ہے تو پھاٹک سے گزرتی ہوئی گاڑیاں اچانک پھنس جاتی ہیں یا بند ہو جاتی ہیں نتیجے میں حادثہ پیش آتا ہے۔ پھاٹک پر اس وجہ کی وجہ سے اب تک کئی حادثات پیش آ چکے ہیں، اس لیے لوگ اسے خونی پھاٹک کے نام سے پکارتے ہیں۔

اگر آپ پھاٹک پر پہنچے گے تو وہ کرامت یا اثر صاف نظر آ جائے گا، پھاٹک پر ایک طرف سے تو گیٹ ہے لیکن ان مین بند ہونے کی صلاحیت نہیں رہی، وہ کئی برسوں سے صرف کھلے ہی پڑے ہیں، کبھی بھی بند نہیں ہوئے۔

حیدرآباد کا ایک ریلوے پھاٹک جس کے دروازوں کو بند نہیں کیا جاسکتا — تصوریر منیش کمار
حیدرآباد کا ایک ریلوے پھاٹک جس کے دروازوں کو بند نہیں کیا جاسکتا — تصوریر منیش کمار

دوسری طرف کوئی گیٹ وغیرہ نہیں۔ عملا ہر وقت غیر حاضر رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ٹرین کی آمد کا وقت ہوتا ہے تو کھلے پھاٹک پر سے گزرتی ہوئی گاڑیوں کے جلد باز ڈرائیورز کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا، نتیجے میں پھاٹک اپنی کرامت دکھا دیتا ہے۔

دو سال قبل اسی پھاٹک پر ٹرین کے تصادم سے آئل ٹینکر کو آگ لگ گئی تھی جس میں تیں افراد جان بحق اور پانچ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ جبکہ ایک اور واقعے میں کار کا ٹرین سے تصادم کے نتیجے میں تین افراد فوت ہوگئے تھے۔ اس کے قریب مرید سپیو پھاٹک پر 14 فروری 2015 کو ٹرین اور مزدا میں ٹکر ہونے کے نتیجے میں 8 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

حیدرآباد - میرپورخاص ریلوے ٹریک پر پھاٹک سمیت کل 11 ریلوے پھاٹک ایسے ہیں جہاں یا تو گیٹ نہیں یا پھر عملا موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس ٹریک پر چلنے والی اکثر ٹرینیں بند ہو چکی ہیں اور اب کوئی اکا دکا ٹرینیں ہی یہاں سے گذرتی ہیں مگر پھر بھی وقت بہ وقت ان کھلے پھاٹکوں کی وجہ سے حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ علاقے میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کرامتی پھاٹکوں پر دو تین سالوں میں 25 سے زیادہ حادثات پیش آ چکے ہیں۔

ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ کے ہائی وے ڈویزن کی جانب سے ریلوے کراچی اور سکھر ڈویزن کے ساتھ کی گئی ایک سروے کے مطابق سندھ صوبے کے مختلف اضلاع میں 44 ایسے پھاٹک ہیں جہاں دروازے نہیں ہیں، جن میں 14 میں لائن اور 27 برانچ لائنز پر ہیں۔ ان میں سے 13 پھاٹک ایسے ہیں جہاں حادثات معمول کی بات بن چکے ہیں۔ سروے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ایک سمری تیار کر کے پھاٹک لگانے اورعملا مقرر کرنے کا فیصلا کیا گیا تھا۔ وزیراعلی سندھ نے سمری بھی منظور کی، لیکن اس کے باوجود اب تک منصوبے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔

حیدرآباد میں موجود ریلوے پھاٹک، جسے خونی پھاٹک بھی کہا جاتا ہے، اس کے ایک جانب دروازہ نصب نہیں ہے — تصویر منیش کمار
حیدرآباد میں موجود ریلوے پھاٹک، جسے خونی پھاٹک بھی کہا جاتا ہے، اس کے ایک جانب دروازہ نصب نہیں ہے — تصویر منیش کمار

حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ منصوبے کے لیے 56 کروڑ 54 لاکھ روپے دینے کی سفارش کی گئی تھی، لیکن سال 2015 کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے صرف 50 لاکھ روپے رکھے گئے تھے، جن میں سے اب تک صرف 12 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

حکومت کی اس لاپرواہی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے صوبے میں ٹریفک کا نظام بالکل ناکام ہو چکا ہے۔ ریلوے نظام تو تباہی کے دہانے پر ہے ہی اور اب صرف اس کے کھلے پھاٹک رہ گئے ہیں جو لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں۔

سڑکوں پر سفر کرنا ایک رسک بن چکا ہے، بڑی گاڑیوں کی جگہ اب سینکڑوں چھوٹی چھوٹی گاڑیاں آگئی ہیں، شاہراہوں پر ٹریفک کا رش بڑھنے کی وجہ سے حادثات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

پھاٹک کے کھلے دروازے خوفناک حادثات کا سبب بنتے ہیں — تصویر منیش کمار
پھاٹک کے کھلے دروازے خوفناک حادثات کا سبب بنتے ہیں — تصویر منیش کمار

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ 2004 سے 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں روزانہ کم از کم 15افراد روڈ حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2004 سے 2013 ملک میں 97 ہزار 7 سو 39 روڈ حادثات میں 51 ہزار 4 سو 16 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سندھ میں 13 ہزار 9 سو 65 حادثات میں 9 ہزار 6 سو 39 افراد ہلاک ہوئے۔

سندھ میں پیش آنے والے حادثات کی خوفناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں زخمی ہونے والوں کا تناسب بہت کم ہے یعنی حادثے کا شکار بننے والی گاڑی کے سواروں میں سے کم ہی لوگ بچ پاتے ہیں۔

ٹریفک حادثات کی کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانیں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ریلوے پھاٹک جوں کے توں کھلے رہتے ہیں اور ملازمیں یا تو اپنے گھروں میں نیند کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی کاروبار۔ ٹریفک سگنلز پر اگر اہلکار نظر بھی آتے ہیں تو صرف دس روپے کا نوٹ لینے کے لیے، ٹریفک قوانیں پر عملدرآمد کروانے سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

حیدرآباد میں موجود اس پھاٹک کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے نظر آتے ہیں — تصویر منیش کمار
حیدرآباد میں موجود اس پھاٹک کے دروازے ہمیشہ ہی کھلے نظر آتے ہیں — تصویر منیش کمار

ایسی صورتحال میں جب قانونی عملدار ہی قانون کو دس روپے کے نوٹ کے عوض بیچنے لگیں تو لوگوں کو قانون پر عمل کرنے میں کتنی دلچسپی ہوگی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا۔

اب تو حالت ایسی ہے کہ لوگ ٹریفک قانون کو قانوں ہی نہیں سمجھتے اور قانون توڑ کر اپنے آپ کو بااختیار اور طاقتور محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ٹریفک قوانیں کی پیروی کرنے والوں پر ہنستے ہیں اور انہیں سادہ لوح اور بیوقوف قرار دیتے ہیں۔

لوگوں کو ٹریفک قوانیں کی معلومات نہ ہونا بھی حادثات کی ایک اہم وجہ ہے جبکہ حکومت اس بارے میں آگاہی کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھا رہی۔

کچھ لوگ اپنے بیٹوں کو کم عمری میں ڈرائیونگ کی اجازت دے دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی نوجوانی کا پہلا امتحان ان گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک دن پتہ چلتا ہے کہ فلاں اپنی جوانی کی پہلی آزمائش ہار بیٹھے۔

اس علاقے میں رہنے والے ارشد کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی گاؤں سے شہر کی طرف جاتے ہیں تو ان کی ماں صرف ایک ہی ہدایت کرتی ہے کہ بیٹا پھاٹک کے دونوں اطراف ٹھیک طرح سے دیکھ کر پھر تیزی سے گذر جانا۔ یقیناً یہ ایک ہی ماں نہیں ہوں گی بلکہ نہ جانے کتنی ماؤں کو ان کھلے پھاٹکوں اور ٹریفک کے ناقص نظام کی وجہ سے اپنی اولاد کی پریشانی لگی رہتی ہوگی۔

مگر ماؤں کے پریشان رہنے سے حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

samo Shamshad Jun 08, 2016 03:14pm
zabrdast
کلیم راجڑ Jun 08, 2016 05:02pm
آپ نے ایک بہت اھم اور غور طلب مسئلے کی نشاندھی کی ھے۔ صوبہ سندھ میں میں ایسے کئی خطرناک ریلوے پھاٹک ہیں جو اموات کا سبب بنتے ہیں، جبکہ کافی جگہوں پر تو پھاٹک بھی نہیں۔ نہ جانے کب حکام کو عوام کی پرواھ ہوگی۔
راشداحمد Jun 09, 2016 11:15am
well done Manish. keep it up
Akhtar Hafeez Jun 09, 2016 02:30pm
Good topic Manesh and nice write up