انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر انوشہ رحمان نے جولائی 2016 میں عزم کیا تھا کہ پاکستان فائیو جی ٹیکنالوجی اپنانے والے اولین ممالک میں سے ایک ہوگا، مگر اس حوالے سے اب تک ٹھوس اقدامات نظر نہیں آئے۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات احسن اقبال کے حوالے سے بھی گزشتہ دنوں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ انہوں نے کہا کہ حکومت 5 جی سیلولر سروسز کو ملک میں جلد متعارف کرانے کی منصوبہ کررہی ہے تاکہ تیز تر انٹرنیٹ فراہم کیا جاسکے۔

مگر حکومتی ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے اور وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ " پاکستان انفارمیشن کمیونیکشن ٹیکنالوجیز کے معاملے میں کافی پیچھے ہے، بدقسمتی سے سابقہ حکومتوں نے تھری جی اور فور جی کو بروقت نہیں اپانایا، حالانکہ دنیا ڈیٹا ٹرانسفر کے لیے فائیو جی ٹٰکنالوجی پر کام کررہی ہے، ن لیگ کی حکومت نے 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی تھری جی اور فوجی سروسز کی نیلامی کی، جس کے بعد ملک فائیو جی کے حوالے سے باقی دنیا کے برابر کھڑا ہونے کے قابل ہوسکا، ملک میں نئی ٹیکنالوجی کو لانے کے لیے حکومت انفارمیشن کمیونیکشن ٹیکنالوجیز کے لیے جدید انفراسٹرکچر کو متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے"۔

تاہم کیا 5 جی کو اپنانا ممکن ہے؟

مختصر الفاظ میں، نہیں۔

یہ درحقیقت دیوانے کے خواب سے کم نہیں کیونکہ ملک کے اکثر حصوں میں ابھی تک تھری جی سروسز کو بھی فراہم نہیں کیا جاسکا۔

مزید برآں فائیو جی ٹیکنالوجی اس وقت دنیا میں کہیں بھی دستیاب نہیں، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور برطانیہ نے 2020 تک فائیو جی سروسز کو متعارف کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جس کے حصول کے بارے میں ماہرین کچھ زیادہ پرامید نہیں۔

پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

ٹیلی حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں تھری جی اور فور جی سروسز کا معیار بہت ناقص ہے۔

ایک ٹیلی کام کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا " صارفین تھری جی اور فور جی سروسز کے معیار سے مطمئن نہیں، تھری جی اور فو جی سروسز کے حوالے سے خلاءکو بھرنے کی ضرورت ہے"۔

گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی وائرلیس نیٹ ورک میپنگ کمپنی اوپن سگنل کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ تھری جی کی رفتار کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک میں پاکستان بہت نیچے ہے جہاں اس کی رفتار 3.33 ایم بی پی ایس ہے۔

اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا اس معاملے میں سرفہرست ہے جہاں موبائل انٹرنیٹ کی رفتار 41.34 ایم بی پی ایس ہے۔

جہاں تک فور جی سروسز کی بات ہے تو پاکستان میں صرف زونگ اور وارد ہی دو کمپنیاں ہیں جو اسے فراہم کررہی ہیں۔

وارد کی جانب سے فور جی کو محدود شہروں میں ہی فراہم کیا جارہا ہے جنھیں کمپنی " سب آمدنی پیدا کرنے والے شہر" سمجھا جاتا ہے۔

زونگ خود کو فور جی سروسز کا مارکیٹ لیڈر قرار دیتی ہے مگر صارفین کو سگنلز کی دستیاب اور کنکٹیویٹی کے حوالے سے تاحال مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

اگرچہ ملک کا بڑا حصہ بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تاحال تھری جی اور فور جی سروسز سے محروم ہیں، کچھ آپریٹرز کی جانب سے خطے میں 2.75 جی سروسز کو فراہم کیا جارہا ہے۔

پاکستان میں 5 جی کی تیاریاں

اگر دیکھا جائے کہ ٹیلی کام سیکٹر یا کمپنیاں فائیو جی کو پاکستان میں متعارف کرانے کے لیے تیار ہیں تو موبی لنک کے ترجمان عمر منظور نے کہا کہ فائیو جی ٹیلی کام سیکٹر میں ایک نیا تصور ہے، ملک میں نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے کافی جذبہ پایا جاتا ہے۔

تاہم اس حوالے سے اقدامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اس حولے سے کام کیا جائے گا۔

دوسری جانب وارد کے ذرائع کا کہنا تھا کہ کمپنی نے اب تک فائیو جی سروسز کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور اس وقت وہ موبی لنک سے مدغم ہونے پر کام کررہی ہے۔

زونگ کے علی رضوی نے یہ تو نہیں بتایا کہ فائیو جی سروسز کی فراہمی کے لیے کمپنی نے کیا ضروری انفراسٹرکچر ورک کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنی فائیو جی کو اپنانے کے لیے پرجوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی 2020 میں متعارف کرائے جانے کا امکان ہے اور اس حوالے سے انتظامات اس وقت مکمل کیے جائیں گے جب پاکستان مین تیز اور قابل انحصار ٹیکنالوجی کی طلب میں اضافہ ہوگا۔

ٹیکنالوجی تجزیہ کار سلیم کریم کی اس بارے میں رائے ہے کہ زونگ فائیو جی ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہے جبکہ اس کمپنی کا تعلق چین سے ہے جہاں اس حوالے سے کام بھی ہورہا ہے، مگر یہ واضح نہیں کہ اس بارے میں کیا کچھ کیا جارہا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے ترجمان خرم مہران نے ڈان کو بتایا کہ متعلقہ حلقے صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں کیونکہ فائیو جی ٹیکنالوجی تاحال دنیا میں کمرشلائز نہیں ہوسکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اتھارٹی اس سروس کے لیے مطلوبہ سہولیات کی دستیابی کو یقینی بنائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تھری جی اور فور جی سروسز کو تاخیر سے متعارف کرایا گیا مگر توقع ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو متعارف کرائے جانے کے بعد جلد از جلد اپنالیا جائے گا۔

فائیو جی کیا ہے؟

اگرچہ ماہرین ابھی بھی واضح نہیں کہ فائیو جی کا اصل مطلب کیا ہے، مگر یہ واضح ہے کہ یہ ٹیکنالوجی گیم چینجر ثابت ہوگی، جو سیکنڈوں میں ڈیٹا کی بڑی مقدار ڈاﺅن کرنے کی سہولت صارفین کو فراہم کرے گی۔

فائیو جی کی رفتار کے بارے میں توقع ہے کہ وہ ایل ٹی ای ڈیٹا ٹرانسفر اسپیڈ سے ایک ہزار گنا زیادہ تیز ہوگی، چین نے اس حوالے سے نمونے کی آزمائش کی ہے جس میں ڈیٹا ٹرانسفر اسپیڈ 3.5 جی بی پی ایس رہی۔

فائیو جی سروسز ملی میٹر ویو کی بنیاد پر کام کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں