اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینئر رہنما سینیٹر شیریں رحمٰن کا کہنا ہے کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا جبکہ ہندوستانی حکومت کو یہ بات چھیڑنے پر اپنے ہی ملک میں تنقید کا سامنا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز آئی‘ میں بات کرتے ہوئے شیریں رحمٰن کا کہنا تھا کہ سارک سربراہ کانفرنس کا ملتوی ہونا پاکستان کی سفارتی ناکامی ضرور ہے لیکن ہندوستان کی بھی کسی طرح سفارتی فتح نہیں ہے، جبکہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس سے قبل بھی کئی بار سارک کانفرنس ملتوی ہوچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان جانتا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو ایک حد تک ہی ہوا دے سکتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان کشمیر سمیت کسی بھی مسئلے کا عسکری حل نہیں ہے اور کشیدہ سے کشیدہ صورتحال کے بعد بھی مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رکن ممالک کا شرکت سے انکار، سارک کانفرنس ملتوی

شیریں رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا اور ہندوستانی حکومت کو یہ بات چھیڑنے پر اپنے ہی ملک میں تنقید کا سامنا ہے، جبکہ اگر ہندوستان پاکستان کا ’پسندیدہ تجارتی ملک‘ کا اسٹیٹس ختم کرتا ہے تو اس سے بھی پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہندوستان سے تجارت میں پاکستان کو خسارے کا ہی سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ : پاکستان نے معاملہ ورلڈ بینک میں اٹھادیا

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کوئی خارجہ پالیسی ہے اور ہم کرائسز مینجمنٹ کو خارجہ پالیسی کہتے چلے آرہے ہیں، اس وقت ملک کے وزیر خارجہ نواز شریف ہیں جو پہلے ہی کئی مسائل میں گِھرے ہونے کی وجہ سے ملک کے بیرونی معاملات کو نہیں سنبھال سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتا‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کے اس بیان کا بھی جواب نہیں دیا جس میں انہوں نے کشمیر کا موازنہ بلوچستان سے کیا تھا، اب جنگوں کے بجائے الفاظ سے لڑا جاتا ہے اور جب آپ کے ملک پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہوں تو آپ کو بھی جارحانہ رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ ہندوستان جس طرح الزامات لگا کر ہمیں عالمی دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ہماری حکومت اسے سمجھ نہیں پارہی، خطے میں ہماری پوزیشن کمزور ہورہی ہے جس کے لیے ہمیں جامع پالیسی بنانی ہوگی اور اپنا مقدمہ مضبوطی اور کلیئر طریقے سے لڑنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں