مودی کی سب سے بڑی کمزوری

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2016
لکھاری دہلی میں ڈان کے نامہ نگار ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نامہ نگار ہیں۔

سرحد پر بہت تناؤ ہے کیا؟

کچھ پتہ کرو، چناؤ ہے کیا؟

اگر ہندوستانی ووٹر جنگ سے متاثر نہیں ہوتے، تب بھی راحت اندوری کے اس شعر پر غور کیا جانا چاہیے۔ راحت اندوری کا یہ شعر ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی توجہ ضرور حاصل کرے گا۔ مگر یہ بات طے ہے کہ شک کرنے والوں کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جب مائیکل مور نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی پر سرکاری بیانیے کو چیلنج کرتی فلم فارن ہائیٹ 9/11 بنائی تھی، تو انہیں ملک دشمن یا دہشتگردوں کا ایجنٹ قرار نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے بجائے ان کی تعریف کی گئی، اور ایک دلچسپ نظریہ پیش کرنے پر تعمیری تنقید کی گئی۔ اس کے بعد دیکھنے والوں پر چھوڑ دیا گیا کہ آیا وہ مائیکل کی فلم پر یقین کرتے ہیں یا اسے مسترد کر دیتے ہیں۔

کیا کوئی ہندوستانی یا پاکستانی ملک دشمن کہلائے بغیر اور دھمکیوں کی زد میں آئے بغیر جنگ پر آمادہ اپنی اسٹیبلشمنٹس پر انگلی اٹھا سکتا ہے؟

پڑھیے: مودی کی نئی حکمتِ عملی کے نقصانات

فرق ایک پراعتماد بورژوا کا ہے جو اپنی لگاتار فتوحات اور ضرورت کے وقت دھوکہ دینے کی اپنی قابلیت پر مکمل طور پر بھروسہ رکھتی ہے۔ وہ غیر ملکی رہنماؤں کی باتیں سنے، وسائل سے مالامال ممالک کو لوٹے، سب ٹھیک ہے، مگر جب وہ اپنے ملک کے لوگوں کے ساتھ کھیل کھیلنا چاہتی ہے، تو اسے خطرناک نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی ایشیائی حکومتیں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتی ہیں۔

طویل عرصے سے ہندوستان ایک چین مخالف اسٹریٹجی استعمال کرتے ہوئے بحرالکاہل کے تجارتی منظرنامے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے مگر بار بار مقامی اور قابلِ اجتناب مسئلوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک مسئلہ ملاحظہ کیجیے: ہندوستانی شہہ سرخیاں چِلا رہی ہیں کہ "سارک نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے"۔ 1985 میں سارک کے پہلے میزبان بنگلہ دیش کے جنرل محمد ارشاد کے مطابق سارک کا مقصد ہندوستان کو گھیرنا تھا۔ انہوں نے مجھے 1997 میں بتایا کہ "ہمیں ہندوستان سے الرجی تھی، لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اس سے نمٹنے کے لیے اکھٹے ہوجائیں۔ پرانی الرجیاں اب شاید بدل گئی ہیں، اور ہندوستان مخالف یہ تنظیم اب ہندوستان کو نیا شراکت دار بنا کر اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

سارک کو ایک مزید کارآمد حکمتِ عملی بنانے کے لیے پاکستان کو بھی اپنے گھر میں دہشتگردی سے نمٹنا چاہیے۔ یہ ایک متوازن نکتہ ہے، مگر شہہ سرخیوں کو چھوڑ کر کیا ہندوستان پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ روسی فوجی ایک سیاسی طور پر تنہا ملک میں کیا کر رہے تھے؟ اور چین؟ اور او آئی سی اور کئی دیگر ممالک؟ اس دفعہ تو او آئی سی نے بھی کشمیر میں جاری قتل و غارت پر غیر معمولی انداز میں آواز اٹھائی۔ اور کشمیر؟ وادی میں موجود لوگوں سے کٹا ہوا کون ہے، پاکستان یا ہندوستان؟

دونوں ہی ممالک کو مذہبی دہشتگردی کے خطرے کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، مگر جب دہشتگرد جنگ کروانے کی کوشش کریں، تو کیا یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ان کی چال کو سمجھا جائے؟

مزید پڑھیے: مودی کی مجبوری

دوسری جانب پاکستان اسٹریٹجک اہمیت کا وہ ملک بننا چاہتا ہے جو پورے وسطی ایشیاء اور اس سے آگے کے ممالک پر اثرانداز ہو سکے۔ مگر یہ افغانستان میں بند سڑک سے آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ جوزف گوبلز کی ایک کہاوت ہمارے قوم پرستوں پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ "پریس ایک ایسا کی بورڈ ہے جسے حکومت بجاتی ہے۔" اسی لیے جب جارج پرکووچ سے انتہاپسند قوم پرست نظریات کا توڑ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ: "ٹی وی کی تار نکال دیں۔"

اس سے مجھے واقعی فائدہ ہوا ہے اور یہ آپ کا ذہنی سکون واپس لانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے بجائے آپ اخبار پڑھا کریں۔ اخبار چِلاتے نہیں ہیں۔ اگر آپ کسی اداریے سے متفق نہیں تو آپ اس میں اپنا کھانا لپیٹ لیں یا اس سے صفائی کا کام بھی لے سکتے ہیں۔

مجھے واقعتاً خوشی ہے کہ مودی حکومت نے "دہشتگردی کے خلاف ایک شاندار فتح" حاصل کی ہے، جسے صرف نہایت پرعزم لیڈر ہی حاصل کر سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے اگر وہ خوش ہیں تو۔ مگر مجھے اس بات پر بھی خوشی ہے کہ پاک فوج اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ موجودہ تنازعے کا بڑھنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ کیا امن کا دور قریب ہے؟

یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں راحت اندوری کے شعر پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ اگر لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب حملہ دہشتگردی روکنے کے لیے کیا گیا تھا، تو اس نے ایک اور فوجی کیمپ پر حملہ ہونے سے روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ اگر بنیادی مقصد سیاسی فائدہ تھا، تو وہ بھی ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ہندوستانی فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ کوئی دوسرا آپریشن کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، یہ وعدہ نہیں ہے، صرف امید ہے۔

سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ایسی کوئی سرجیکل اسٹرائیک ہوئی بھی ہے یا نہیں، اور سوال اٹھانے والوں میں صرف پاکستانی ہی شامل نہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے مبصر مشن کا کہنا ہے کہ اس نے "ایل او سی کے پار حالیہ واقعات سے متصل کسی بھی فائرنگ کا مشاہدہ نہیں کیا ہے۔"

جانیے: جنگ سے زیادہ اہم اور ضروری کام

پھر یا تو اقوامِ متحدہ کے لوگ سو رہے تھے، یا وہ زیادہ تر لوگوں سے زیادہ واقفِ حال ہیں۔

تین اہم الیکشن قریب ہیں، اہم اس لیے ہیں کہ یہ 2019 میں مودی کو دوسری اننگز کے لیے مستحکم امیدوار بنانے (یا نہ بنانے) میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پنجاب میں ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق عام آدمی پارٹی سب سے آگے ہے۔ گوا میں بھی عام آدمی پارٹی یا تو جیت رہی ہے یا کم از کم سب سے آگے ضرور ہے۔ اتر پردیش میں سابق وزیرِ اعلیٰ مایاوتی کانگریس کو ممکنہ جونیئر اتحادی کے طور پر لیے ہوئے سب سے آگے ہیں۔ ریاست میں فسادات مسلمانوں کو ان کا حامی بنا سکتے ہیں۔ اس میں حیرت نہیں کہ مودی کو اچانک مسلمان پسند آنے لگے ہیں، جنہیں وہ اپنا بھائی اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دے رہے ہیں۔

اگر وہ سیاست کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو وہ پاکستان کو تنہا کرنے کی ناکام کوششیں کرنے کے بجائے اس سے دوستی کی کامیاب کوشش کریں گے۔ کیوں؟ اٹل بہاری واجپائی 2002 میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد فوج کو حرکت میں لائے اور 2004 میں الیکشن ہار گئے۔ منموہن سنگھ نے 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد بظاہر کچھ نہیں کیا۔ 2009 میں وہ غیر متوقع طور پر ایک بار پھر جیت گئے۔ مگر مودی تاریخ کے اچھے طالبعلم نہیں ہیں، اور یہی ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

لکھاری دہلی میں ڈان کے نامہ نگار ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 اکتوبر 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں