اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کمیشن رپورٹ میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی جانب سے انسانی زندگیوں کو بے رحمانہ انداز میں نظرانداز کیے جانے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبے بھر کے ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے کی غیر حاضری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جہاں خودکش بمبار نے لوگوں کو مارا، وہیں کئی جانیں بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث بھی ضائع ہوئیں۔

110 صفحات پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ میں وکلاء کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ خودکش دھماکے کے وقت ہسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل کا عملہ غیر حاضر تھا جس وجہ سے کئی زخمیوں کو بروقت طبی امداد فراہم نہیں کی جاسکی۔

یاد رہے کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں رواں برس 8 اگست کو ہونے والے خودکش دھماکے میں وکلاء سمیت 74 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ میں حکومت پر تنقید

کمیشن کی رپورٹ کے تحت صوبے کے ناقص طبی نظام پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے، تاہم کمیشن کی رپورٹ میں لیڈی ڈاکٹر شہلاسمیع جیسے کرداروں کی تعریف بھی کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ لیڈی ڈاکٹر شہلاسمیع نے دھماکے کے وقت بھگدڑ مچ جانے سے زخمی ہونے والوں کو بروقت طبی امداد فراہم کرکے چند لوگوں کی زندگیاں بچائی تھیں۔

رپورٹ میں تعریف کرتے ہوئے کہا گیا کہ ڈاکٹر شہلا جیسے کردار دیگر ڈاکٹروں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں، دیگر ڈاکٹرز کو بھی ان ہی کی طرح کردار ادا کرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔

زخمیوں کی مشکلات میں اضافہ

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ہسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی غیرموجودگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج سے تعلیم یافتہ ڈاکٹرز کا ڈیوٹیوں سے غیر حاضر ہونا افسوس ناک ہے، ڈاکٹرز کو عوام کی خدمت کے بدلے مراعات دی جاتی ہیں مگر سانحہ کوئٹہ کے وقت ڈاکٹرز کی غیر موجودگی نے زخمیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا جب کہ کچھ لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ زخمیوں کو اعلیٰ شخصیات کے دوروں کی وجہ سے بھی مشکلات برداشت کرنا پڑیں، وزیراعظم اور آرمی چیف کے دورے کے موقع پر سیکیورٹی اہلکاروں اور بم ڈسپوزل عملے کی جانب سے آپریشن تھیٹر سمیت پورے ہسپتال کی تلاشی لی گئی۔

مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ رپورٹ پر بلوچستان حکومت برہم

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اعلیٰ شخصیات کے دوروں کے دوران ہسپتال کی حدود میں موبائل جیمرز استعمال کیے گئے جس وجہ سے زخمی مریض اپنے ورثاء اور ڈاکٹرز، عملے سمیت دیگر لوگوں سے ایمرجنسی کی صورت میں رابطہ کرنے سے قاصر رہے، کیوں کہ جیمرز کے باعث موبائل فونز کے سگنل ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے۔

رپوٹ میں کہا گیا کہ اہم شخصیات کے دوروں کے دوران ڈاکٹرز کو مختلف وارڈز میں روک دیا گیا جس وجہ سے ہسپتال انتظامیہ کے کام میں رکاوٹ سمیت دیگر مسائل پیدا ہوئے۔

کمیشن نے تجویز دی کہ ایمرجنسی کے ایسے مواقع کے دوران اہم شخصیات کو ہسپتالوں کا جلد دورہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ حالات بہتر ہونے کے بعد مختصر سیکیورٹی عملے اور میڈیا ٹیم کے بغیر دورہ کرنا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: سول ہسپتال واقعہ سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے:چیف جسٹس

رپورٹ کے مطابق آرمی چیف کے دورے کے دوران کنٹونمنٹ ایریا کو بند کردیا گیا جس وجہ سے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) تک رسائی ناممکن ہوگئی اور زخمی ہونے والے 2 بے ہوش مریضوں کو بروقت سی ایم ایچ منتقل نہیں کیا جاسکا۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ وی آئی پی کلچر کے باعث تمام زخمیوں کو یکسیاں طبی امداد فراہم نہیں کی جاتیں حالانکہ تمام مریضوں کو کسی تفریق کے بغیر طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سی ایم ایچ، سانحے کا شکار بننے والے ہسپتال سے اچھے خاصے فاصلے پر واقع ہے جب کہ فوجیوں کے علاقے میں ہونے کے باعث سی ایم ایچ پہنچنے میں کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔

کمیشن کے مطابق جانی نقصان سے بچنے کے لیے زخمیوں کو حکومتی نگرانی میں سی ایم ایچ منتقل کیا گیا، جبکہ انھیں بولان میڈیکل کالج ہسپتال اور خلیفہ شیخ زید ہسپتال منتقل کیا جانا چاہیئے تھا کیوں کہ وہاں سی ایم ایچ سے زیادہ سہولیات موجود تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دھماکے کے وقت کئی پریشان حال لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو زخمی حالت میں طبی امداد کے لے ہسپتال لے کر پہنچے مگر ہسپتال میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل عملہ غیر موجود تھا۔

کمیشن نے عینی شاہدین کی جانب سے ریکارڈ کرائے گئے بیانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'سی ایم ایچ انتظامیہ بھی ہنگامی طور پر زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے رضامند نہیں تھی جب کہ سی ایم ایچ کا عملہ بھی مبینہ غفلت میں ملوث پایا گیا'۔

مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ کے بعد ’کئی افراد گرفتار، تفصیل نہیں بتائی جاسکتی

رپورٹ میں کہا گیا کہ عینی شاہدین کے مطابق سی ایم ایچ انتظامیہ نے وجہ بتائے بغیر ایڈوکیٹ غنی جان آغا کی گردن میں لگائی گئی سانس کی مصنوعی نالی (endotracheal tube) اتار دی جس کے باعث وہ زندگی کی بازی ہار گئے، عینی شاہدین کے مطابق ایڈوکیٹ غنی جان نالی کے ذریعے مصنوعی سانس لے رہے تھے۔

ہسپتالوں کی حالت زار

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سانحے کا شکار ہونے والے ہسپتال کی حالت زار بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ہسپتال میں جہاں ڈاکٹرز اور عملے کی کمی تھیں وہیں اسٹریچرز اور بستروں کا بھی فقدان تھا، جس وجہ سے ہسپتال میں ایک بستر پر ایک سے زائد زخمیوں کا علاج کیا گیا۔

کمیشن کے مطابق اسٹریچر کی کمی کے باعث دھماکے میں زخمی افراد کو بروقت طبی امداد کے لیے منتقل نہ کیے جانے کی وجہ سے کچھ افراد زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ ہسپتال میں فرسٹ ایڈ کی ادویات تک موجود نہیں تھیں اور صوبے کے تمام ہسپتالوں کی یہی حالت ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ متعدد بار ہسپتالوں کے دہشت گردی اور دھماکوں کا نشانہ بننے کے باوجود تاحال ہسپتالوں میں آگ بجھانے والے آلات کی فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاسکا۔

رپورٹ میں 8 اگست کے دھماکے کے وقت ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل عملے کے بڑے پیمانے پر غیرحاضری کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ عملے کے کئی افراد وجہ بتائے بغیر ڈیوٹیوں سے غیر حاضر رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوچکی ہے اور اس نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل تنظیموں کے سامنے خود کو پیش کردیا ہے۔


یہ خبر 17 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 17, 2016 06:14pm
السلام علیکم: جس اسپتال کے نام میں سرکاری (گورنمنٹ ) کا لفظ شامل نہ ہو وہاں کوئی عام آدمی بغیر معاوضہ علاج کرکے تو بتائیں، انسانیت اور ملکی آئین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے زخمی کو داخل (ایڈمٹ) ہی نہیں کیا جاتا ، بعض لوگ تو دوسروں سے زیادہ ہی لوگ ہوتے ہیں۔خیرخواہ