پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے بارے میں کئی خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ کئی مبصرین نے تو اسے ایسٹ انڈیا کمپنی تک سے ملا دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین پاکستان پر انگریز کی طرح قابض ہوجائے گا۔

ایک طرف یہ، تو دوسری جانب سی پیک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ کیا ہو رہا ہے، یہ جاننے کے لیے ہمیں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی مختلف اقسام کو فرداً فرداً دیکھنا ہوگا۔

بنیادی طور پر ایف ڈی آئی دو طرح کی ہوتی ہے۔ براؤن فیلڈ انویسٹمنٹ وہ سرمایہ کاری ہوتی ہے جو پہلے سے موجود اثاثوں اور کمپنیوں میں کی جاتی ہے۔ مثلاً حال ہی میں شنگھائی الیکٹرک نے کے الیکٹرک خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ چینی کمپنیاں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔

دوسری طرف گرین فیلڈ انویسٹمنٹ وہ سرمایہ کاری ہوتی ہے جو نئے اثاثوں کی تخلیق اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کی جاتی ہے، مثلاً کوئلے کے بجلی گھروں کی تعمیر۔

اس کے علاوہ چینی کمپنیوں نے نئی ایئرلائنز شروع کرنے اور بینکنگ سیکٹر میں قدم رکھنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری اتصالات کی جانب سے پی ٹی سی ایل خریدنے یا 1990 کی دہائی میں نیشنل پاور کی جانب سے پاکستان کے سب سے بڑے خود مختار پاور پلانٹ (آئی پی پی) حب پاور پلانٹ کی تعمیر سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ ان چیزوں پر پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ نجی کمپنیوں کے پاکستان میں کاروبار کرنے کا معاملہ ہے، اور پاکستان غیر ملکیوں کے یہاں کاروبار پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

'سرمایہ کاری' کی ایک اور قسم لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین ہے۔ اس سے ملک میں سرمایہ بھی آ رہا ہے اور انفراسٹرکچر بھی تعمیر ہو رہا ہے، مگر یہ ایف ڈی آئی کی روایتی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ اس کے بجائے یہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے خریداری زیادہ ہے۔ پراجیکٹ کے لیے زمین صوبائی حکومت کے ترقیاتی فنڈز سے حاصل کی گئی ہے۔ تعمیراتی کام اور انجن و بوگیاں آسان شرائط پر قرضے کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہیں۔ حکومت اس پراجیکٹ کے تمام کاروباری خسارے پورے کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ قرض کی ادائیگی کے لیے بھی ذمہ دار ہوگی۔

اسے چلانے کا ٹھیکہ بھی ایک نجی فرم کو دیا جا رہا ہے، جس کے اخراجات رعایتی مدت (گریس پیریڈ) کے اختتام کے بعد بالآخر حکومت قرض کی اقساط کے علاوہ ادا کرے گی۔ ایک طرح سے یہ خدمات کی خریداری ہے۔

اس نوعیت کے اخراجات جائز طور پر ترقیاتی اخراجات کی ترجیحات، خریداری میں شفافیت، اور پراجیکٹ کی اقتصادی طور پر موزونیت کے حوالے سے سوالات کھڑے کریں گے، اور حکومت کو مفادِ عامہ سے تعلق رکھنے والے ان تمام سوالات کا جواب دینا ہوگا۔

چنانچہ ہمارے سامنے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، جو سرکاری اور نجی حلقوں میں یکساں طور پر گردش میں ہے: کیا سی پیک کے منصوبے قرضہ ہیں یا براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری؟

کسی بھی منصوبے کے ایف ڈی آئی ہونے کے لیے ایک قابلِ شناخت سرمایہ کار ہونا ضروری ہے جو کاروباری خسارے کا کچھ حصہ برداشت کرے۔ یہ حب پاور پلانٹ کے معاملے میں نیشنل پاور کی طرح ایک نجی سرمایہ کار ہوسکتا ہے، یا پھر ایک غیر ملکی حکومتی کمپنی، جیسے پی ٹی سی ایل کے معاملے میں اتصالات، یا کے الیکٹرک کے معاملے میں شنگھائی الیکٹرک۔

اب تک سی پیک منصوبوں کے لیے آنے والا سرمایہ زیادہ تر بھاری الیکٹریکل ساز و سامان کی صورت میں، اور تھوڑی تعداد میں تعمیراتی کام کی مد میں ٹھیکیداروں کے لیے آ رہا ہے، جس سے ذیلی ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں کی جائیں گی۔ تھرمل پاور پلانٹ بلاشبہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری ہیں، کیوں کہ ان میں سرمایہ کار چینی کمپنیاں ہیں جو کاروباری خسارے میں حصے دار ہوں گی۔

اس کے لیے جو بھی قرضے اٹھائے جائیں گے، نجی کمپنیاں ہی ان کی ادائیگی کے لیے ذمہ دار ہوں گی (پاور پلانٹس کو ساورین گارنٹیاں اس کے علاوہ ہیں)۔ ساورین گارنٹی رسک کم کر دیتی ہے، مگر اس سے سودے کی نوعیت نہیں بدلتی، جس میں ایک غیر ملکی سرمایہ کار خسارے میں حصہ دار بنتا ہے۔ اگر کوئی مقامی فرم مشترکہ منصوبے میں حصے دار ہو، یا مقامی مارکیٹ سے قرضہ اٹھایا جائے، تو اس فنڈ کو براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں شمار نہیں کیا جاتا۔

دوسری جانب ٹرانسپورٹ پراجیکٹس مثلاً سڑکوں کی تعمیر، ریلوے کی اپ گریڈیشن، اور لاہور اورنج لائن میٹرو عوامی منصوبے ہیں جنہیں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو بھی نہیں۔ یہ قرضے ہیں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے عوامی شعبے کے ترقیاتی پروگرامز میں سے خرچ کی جانے والی رقم ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ قرضے آسان شرائط پر ہیں یا سخت شرائط پر۔ عام طور پر کمرشل پراجیکٹس، مثلاً پاور پلانٹس وغیرہ کے لیے قرضے کمرشل شرائط پر دیے جاتے ہیں۔ عوامی شعبے کے پراجیکٹس کے لیے آسان شرائط پر دیے جاتے ہیں۔

تو ہمیں چینی سرمایہ کاری کو کیا قرار دینا چاہیے؟ پاکستان میں بڑی تعداد میں سرمایہ آ رہا ہے۔ اس سے پہلے ہم براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری، اور ترقیاتی کاموں کے لیے قرضوں کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور تھے۔

کیا چین ہماری معیشت پر حاوی ہوجائے گا، جیسا کہ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے؟

نہیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔

زیادہ سے زیادہ برا یہ ہوگا کہ بجلی کی پیداوار میں چینی کاروباری مفادات لابی کا روپ اختیار کر لیں جیسا کہ ہمارے پاس معیشت کے دیگر شعبوں میں پہلے سے ہی ہے۔ مگر حکومت ریگولیٹری اداروں کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 جنوری 2017 کو شائع ہوا.

تبصرے (1) بند ہیں

زیدی Jan 21, 2017 10:07pm
اکاس بیل ہیں یہ